Ayats Found (9)
Surah 4 : Ayat 74
۞ فَلْيُقَـٰتِلْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يَشْرُونَ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا بِٱلْأَخِرَةِۚ وَمَن يُقَـٰتِلْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
(ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں1، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے
1 | یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیشِ نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو، جو اللہ اور آخرت پر کام اعتماد رکھتے ہوں، اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دُنیوی مفاد اس اُمید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہو گا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دُنیوی مفاد ہی کی ہو، تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے |
Surah 6 : Ayat 32
وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌۖ وَلَلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے1، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟
1 | (اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے ارو یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کےقتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تماشے اس دُنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں، حالاں کہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے، حالاں کہ غیب کے عِلم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالاں کہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اَور کا محتاج ہے۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزّت اور ذلّت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے، حالاں کہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گر ا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔ یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اُس عالَم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابقِ حقیقت ہو گا اور جہاں دُنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزانِ حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو |
Surah 7 : Ayat 169
فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ ٱلْكِتَـٰبَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـٰذَا ٱلْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُۥ يَأْخُذُوهُۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَـٰقُ ٱلْكِتَـٰبِ أَن لَّا يَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّ وَدَرَسُواْ مَا فِيهِۗ وَٱلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اِسی دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں1 کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے2 آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے3، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟
3 | اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ”خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے“۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف اُن لوگوں کا کام ہے جو نا خدا ترس ہوں، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو تر جیح دیتے ہیں |
2 | یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہر حال تمہاری مغفرت ضرور ہو گی ۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلاف ِ حق نہ کہیں گے |
1 | یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہر حال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بد نصیب لوگ ! اُس کتاب کے وارث ہوئے جو اُن کو دنیا کا امام بنانے والی تھی، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاعِ حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل وراستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے ، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے |
Surah 9 : Ayat 38
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱثَّاقَلْتُمْ إِلَى ٱلْأَرْضِۚ أَرَضِيتُم بِٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا مِنَ ٱلْأَخِرَةِۚ فَمَا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْأَخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے لوگو1 جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا
1 | یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔ |
Surah 12 : Ayat 109
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓۗ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۗ وَلَدَارُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟
Surah 13 : Ayat 26
ٱللَّهُ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ وَفَرِحُواْ بِٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْأَخِرَةِ إِلَّا مَتَـٰعٌ
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ نپا تلا رزق دیتا ہے 1یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ د نیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں
1 | اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفارمکہ بھی عقیدہ و عمل کے حس و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر قیمت کا حساب لگاتے تھے۔ اُن کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خو ب سامانِ عیش مِل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے ، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خوا ہ وہ کیسا ہی نیک ہو۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، اللہ کس کے ساتھ ہے۔ ا س پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم ۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی ومعنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرقِ مراتب کی اصل بنیاد اور اُن کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط ، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے بُرے اوصاف کا۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم |
Surah 16 : Ayat 30
۞ وَقِيلَ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ مَاذَآ أَنزَلَ رَبُّكُمْۚ قَالُواْ خَيْرًاۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ فِى هَـٰذِهِ ٱلدُّنْيَا حَسَنَةٌۚ وَلَدَارُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌۚ وَلَنِعْمَ دَارُ ٱلْمُتَّقِينَ
دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ 1"بہترین چیز اتری ہے" اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا
1 | یعنی مکے سے باہر کے لوگ جب خدا سے ڈرنے والے اور راستباز لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان کا جواب جھوٹے اور بد دیانت کافروں کے جواب سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتے۔ وہ عوام کو بہکانے اور غلط فہمیوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ حضور کی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی تعریفیں کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں۔ |
Surah 87 : Ayat 16
بَلْ تُؤْثِرُونَ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو1
1 | یعنی تم لوگوں کی ساری فکر بس دنیا اور اس کی راحت و آسائش اور اس کے فائدوں اور لذتوں کے لیے ہے یہاں جو کچھ حاصل ہو جائے تم سمجھتے ہو کہ بس وہی اصل فائدہ ہے جو تمہیں حاصل ہو گیا، اور یہاں جس چیز سے محروم رہے تمہارا خیال ہے کہ بس وہی اصل نقصان ہے جو تمہیں پہنچ گیا۔ |
Surah 87 : Ayat 17
وَٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰٓ
حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے1
1 | یعنی آخرت دو حیثیتوں سے دنیا کے مقابلے میں قابل ترجیح ہے۔ ایک یہ کہ اس کی راحتیں اور لذتیں دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں اور دوسرے یہ کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی |