Ayats Found (90)
Surah 1 : Ayat 1
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے1
1 | اسلام جو تہزیب انسان کو سکھاتا ہےاس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتدا خدا کے نام سے کرے۔ اس قاعدے کی پابندی اگر شعور اور خلوص کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماََ تین فائدے حاصل ہوں گے۔ایک یہ کہ آدمی بہت سےبرے کاموں سے بچ جائے گا کیو نکہ خدا کا نام لینے کی عادت اُسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سو چنے پر مجبور کر دے گی کی کیا واقعی میں اس کام پر خدا کا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اورنیک کاموں کی ابتدا کرتے ہوئے خدا کا نام سے آدمی کی ذہنیت با لکل ٹھیک سمت اختیار کر لے گی اور وہ ہمشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور تو فیق اس کے شامل حال ہو گی،اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اُس کو بچایا جائے گا۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ |
Surah 1 : Ayat 7
صِرَٲطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا1، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں2
2 | یعنی‘‘انعام’’پانے والوں سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر عارضی طور پر تیری دُنیوی نعمتوں سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر دراصل وہ تیرے غصب کے مستحق ہوٴا کرتے ہیں اور اپنی و سعادت کی راہ گم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ ‘‘انعام’’سے ہماری مراد حقیقی اور پائدار انعامات ہیں جوراست روی اور خدا کی خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں اور نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کےسامنے بڑے بڑے ظالموں اوربدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں |
1 | یہ اُس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالٰی سے مانگ رہے ہیں۔یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوٴا اور تیری نعمتوں سے مالامال ہوکر رہا |
Surah 2 : Ayat 127
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَٲهِــۧمُ ٱلْقَوَاعِدَ مِنَ ٱلْبَيْتِ وَإِسْمَـٰعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے
Surah 2 : Ayat 128
رَبَّنَا وَٱجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَآ أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مُطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
Surah 2 : Ayat 201
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْأَخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ
اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا
Surah 2 : Ayat 250
وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِۦ قَالُواْ رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے، تو انہوں نے دعا کی: "اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر"
Surah 2 : Ayat 285
ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِۦۚ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ
رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: 1"ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے"
1 | اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر کر کے اسلام کے عقائد اور اسلامی طرزِ عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اور اس کی کتابوں کو ماننا۔ اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے درمیان فرق کیا جائے ( یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے)۔ اور اس امر کو تسلیم کرنا کہ آخر کار ہمیں اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ یہ پانچ امور اسلام کے بنیادی عقائد ہیں۔ اِن عقائد کو قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم پہنچے، اُسے وہ بسر و چشم قبول کرے، اس کی اطاعت کرے، اور اپنے حسنِ عمل پر غرّہ نہ کرے، بلکہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہے |
Surah 2 : Ayat 286
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ وَٱعْفُ عَنَّا وَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَآۚ أَنتَ مَوْلَـٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا1 ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے2 (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے 3پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ،4 ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر5
5 | اس دُعا کی پوری رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے، اور صرف مکّہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہٴ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں صمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے، اور دُوسری طرف اُس دُعا کی دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے، اور دُوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے، جن سے یہ دُعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی |
4 | یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال ، جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پُورے اُتر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوتِ برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہَ حق سے ڈگمگا جائیں |
3 | یعنی ہمارے پیش رووں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں ، جن زبردست ابتلا ؤ ں سے وہ گزرے، جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا، اُن سے ہمیں بچا۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے ، اُسے سخت ازمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اورجب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دُعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے |
2 | “یہ اللہ کے قانونِ مجازات کا دُوسرا قاعدہٴ کلیہ ہے۔ ہر آدمی انعام اُسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دُوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصُور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصُور میں دُوسرا پکڑا جائے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں ۔ اور ایک دُوسرے شخص نے کسی بُرائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالمِ اوّل کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا بُرا، جو کچھ بھی پھل ہوگا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بِھلائی یا جس بُرائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصّہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مِل جائے۔ مکافاتِ عمل کو ئی قابل انتقال چیز نہیں ہے |
1 | یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہر گز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تُو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے موٴ اخذہ کرے کہ تُو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا |
Surah 3 : Ayat 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ
وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: "پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے
Surah 3 : Ayat 9
رَبَّنَآ إِنَّكَ جَامِعُ ٱلنَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
پروردگار! تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں تو ہرگز اپنے وعدے سے ٹلنے والا نہیں ہے"