Ayats Found (2)
Surah 16 : Ayat 2
يُنَزِّلُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ بِٱلرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ أَنْ أَنذِرُوٓاْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۟ فَٱتَّقُونِ
وہ اِس روح1 کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے2 (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) 3"آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو"
3 | اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ رُوحِ نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اِس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے۔ کوئی دوسرااس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر وعمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔ |
2 | فیصلہ طلب کرنے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد صالی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معًا بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہو کر یہ شخص نبوت کر رہا ہے۔ پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پراللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، تو یہ کفارکے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمدؐ بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا، مکّےاور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیاگیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔ |
1 | یعنی روح ِنبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پراس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس (Holy) کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا۔ |
Surah 23 : Ayat 15
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٲلِكَ لَمَيِّتُونَ
پس بڑا ہی بابرکت ہے1 اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر
1 | اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعمالات زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اس کا اندازہ کرو اس سے زیادہ ہی اس کو پاؤ حتّیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان حواشی 1۔19)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَا رَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدر جہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے اسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے ، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں ، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے |