Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 75
ٱللَّهُ يَصْطَفِى مِنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ ٱلنَّاسِۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی1 وہ سمیع اور بصیر ہے
1 | مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چن لیا ہے۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا ، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی |
Surah 35 : Ayat 1
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ رُسُلاً أُوْلِىٓ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۚ يَزِيدُ فِى ٱلْخَلْقِ مَا يَشَآءُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا ہے1، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں2 وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے3 یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے
3 | ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔مسلم۔ ترمذی)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے اُفق پر چھائے ہوئے تھے، (ترمذی)۔ |
2 | ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالٰی نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالٰی نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعتِ رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔ |
1 | اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالٰی اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہٗ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسے طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اُڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔ |