Ayats Found (2)
Surah 53 : Ayat 5
عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ
اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی1 ہے
1 | یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے ، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے ۔’’زبردست قوت والے ‘‘ سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہؓ حضرت ابو ہریرہؓ، قتادہ، مجاہد، اور ربیع بن انس جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسرے تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے ۔ سورۃ تکویر میں اللہ تعلیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہۂ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ، ذِیْقُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ،مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ،وَلَقَدْرَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِo (آیت 19۔23)۔ ’’در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے ، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے ، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے ۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے ، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے ‘‘۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کر دیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضورؐ کے قلب پر نازل کی گئی تھی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّ الِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہٗ نَزَّلَہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ۔ ان تمام آیات کو اگر سورہ نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جاۓ تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گئے آ رہی ہے ۔ اس مقام پر بعض حضرات جبریل امین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضورؐ شاگرد، اور اس سے حضورؐ پر جبریل کی فضیلت لازم آۓ گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضورؐ کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آۓ، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطہ تعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے ۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں۔ یہ قصہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے |
Surah 53 : Ayat 6
ذُو مِرَّةٍ فَٱسْتَوَىٰ
جو بڑا صاحب حکمت ہے1
1 | اصل میں لفظ ذُوْمِرَّۃٍ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ اس کو خوبصورت اور شاندار کے معنی میں لیتے ہیں۔ مجاہد، حسن بصری، ابن زید اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی طاقت ور کے ہیں۔ سعید بن مُسَیَّب کے نزدیک اس سے مراد صاحب حکمت ہے ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا رشاد ہے : لاتھل الصدقۃ لغنی ولا الذی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔ اس ارشاد میں ذومرہ کو آپ نے تندرست اور صحیح القویٰ کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ عربی محاورے میں یہ لفظ نہایت صائب الراۓ اور عاقل و دانا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جبریل علیہ السلام کے لیے یہ جامع لفظ اسی لیے منتخب فرمایا ہے کہ ان میں عقلی اور جسمانی، دونوں طرح کی قوتوں کا کمال لیا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں کوئی لفظ ان تمام معنوں کا جامع نہیں ہے ۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمے میں اس کے صرف ایک معنی کو اختیار کیا ہے ، کیونکہ جسمانی قوتوں کے کمال کا ذکر اس سے پہلے کے فقرے میں آ چکا ہے |