Ayats Found (1)
Surah 49 : Ayat 8
فَضْلاً مِّنَ ٱللَّهِ وَنِعْمَةًۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں1 اور اللہ علیم و حکیم ہے2
2 | یعنی اللہ کا یہ فضل و احسان کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ جس کو بھی وہ دیتا ہے حکمت کی بنا پر اور اس علم کی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا مستحق ہے |
1 | مطلب یہ ہے کہ پُوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام راۓ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کر دیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روۓ سخن دو الگ الگ گرہوں کی طرف ہے۔ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مَّنَ الْاَمْرِ کا خطاب پوری جماعت صحابہ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کر دینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہ سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی راۓ پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوۓ ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتی کہ جنہوں نے اپنی راۓ پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہو گیا تھا جو کے باعث انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنی راۓ پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر، اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پر صحابہ کی عام جماعت قائم ہے |