Ayats Found (1)
Surah 66 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكَۖ تَبْتَغِى مَرْضَاتَ أَزْوَٲجِكَۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے1؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو23؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
3 | یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہاس پر مواخذہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپؐ کی اس لغزش کو معاف کر دیا |
2 | اس سے معلوم ہوا کہ حضورؐ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ مقصد صرف حضورؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواجِِ نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضورؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیزکیاتھی جسے حضورؐ نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا۔ حضرت ماریہؓ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول ﷺ نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کوبھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق (Patriarch)کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامئہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نےاسلام قبول نہ کیا،مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا ’’مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے،لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں‘‘ (ابن سعد)۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں)مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسانؓ بن ثابت کی ملک یمین میں دےدیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضورؐ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے (الاستیعاب۔ الاصابہ)۔یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضورؐ کو بہت پسند آئی تھیں‘‘۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے مکان میں تشریف لے گئے اوروہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اس وقت حضرت ماریہؓآپ کے پاس وہاں آ گئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہؓ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضورؐ سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپؐ نے ان کو راضی کرنے کے لیےان سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا،اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا ً نقل ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ ’’حضورؐ کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے‘‘۔ دوسرا واقعہ بخاری ، مسلم ،ابو داؤد،نسائی اور دوسری متعدد کتبِ حدیث میں خود حضرت عائشہؓ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینبؓ بنت حجش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے،کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا،اورحضورؐ کو شیرینی بہت پسند تھی،اس لیے آپؐ ان کےہاں شہد کاشربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہؓ ،سودہؓ اور حضرت صفیہؓ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آ جاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضورؐ نہایت نفاست پسند ہیں اور آپؐ کواس سے سخت نفرت ہے کہ آپؐ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے۔اس لیے آپ کو حضرت زینبؓ کے ہاں ٹھہرنے سےروکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپؐ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپؐ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت ’’اب میں ہر گز اسے نہ پیونگا ،میں نے قسم کھا لی ہے‘‘۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں،وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباسؓ سے بورایت ابن المنذر ،ابن ابی حاتم،طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لااشربہ ’’خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا‘‘۔ اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سےاسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصےکو ناقابلِ اعتبار ٹھہرایا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ ’’ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہؓ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہؓ کوحرام کر لینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے‘‘۔ قاضی عیاض کہتے ہیں ’’صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہؓ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے‘‘۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں،اور یہی رائے امام نودی اورحافظ بدر الدین عینی کی ہے۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ ’’شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہؓ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا،اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے‘‘۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے |
1 | یہ دراصل استفہام نہیں ہے۔ بلکہ نا پسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے،بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالٰی کو ناپسند ہے۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کااختیار کسی کو بھی نہیں ہے،حتی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ اگرچہ حضورﷺنے اُس چیز کو نہ عقید ۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اُسے شرعاً حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اُس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا،لیکن چونکہ آپ کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی،اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالٰی نے آپ کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا |