Ayats Found (2)
Surah 66 : Ayat 3
وَإِذْ أَسَرَّ ٱلنَّبِىُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٲجِهِۦ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَضَ عَنۢ بَعْضٍۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَـٰذَاۖ قَالَ نَبَّأَنِىَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ
(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا پھر جب نبیؐ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا، 1"مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے"
1 | مختلف روایات میں مختلف باتوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں بات تھی جو حضورؐ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی اور ان بیوی نے ایک دوسری بیوی سے اس کا ذکر کر دیا۔ لیکن ہمارے نزدیک اول تو اس کا کھوج لگانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ راز کے افشا کرنے پر ہی تو اللہ تعالٰی یہاں بیوی کو ٹوک رہا ہے، پھر ہمارے لیے کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کی ٹٹول کریں اور اسے کھولنے کی فکر میں لگ جائیں۔ دوسرے جس مقصد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ راز کی بات تھی کیا۔ مقصود کلام سے اس کا کوئی تعلق ہوتا تو اللہ تعالٰی اسے خود بیان فرما دیتا۔ اصل غرض جس کے لیے اس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، ازواج مطہرات میں سے ایک کو اس غلطی پر ٹوکنا ہے کہ ان کے عظیم المرتبہ شوہر نے جو بات راز میں ان سے فرمائی تھی اسے انہوں نے راز نہ ر کھا اور اس کا افشا کر دیا۔ یہ محض ایک نجی معاملہ ہوتا، جیسا دنیا کے عام میاں اور بیوی کے درمیان ہوا کرتا ہے، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالٰی براہ راست وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو اس کی خبر کر دیتا اور پھر محض خبر دینے ہی پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اسے اپنی کتاب میں بھی درج کر دیتا جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساری دنیا کو پڑھنا ہے۔ لیکن اسے یہ اہمیت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ تھی کہ وہ بیوی کسی معمولی شوہر کی نہ تھیں بلکہ اس عظیم ہستی کی بیوی تھیں جسے اللہ تعالٰی نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ در پیش تھا جس کی قیادت میں کفر کی جگہ ا سلام کا نظام برپا کرنے کے لیے ایک زبردست جدوجہد ہو رہی تھی۔ ایسی ہستی کے گھر میں بے شمار ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جو اگر راز نہ رہتیں اور قبل از وقت ظاہر ہو جاتیں تو اس کار عظیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا جو وہ ہستی انجام دے رہی تھی۔ اس لیے جب اس گھر کی ایک خاتوں سے پہلی مرتبہ یہ کمزوری صادر ہوئی کہ اس نے ایک ا یسی بات کو جو راز میں اس سے کہی گئی تھی کسی اور پر ظاہر کر دیا (اگرچہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اپنے ہی گھر کا ا یک فرد تھا) تو اس پر فوراً ٹوک دیا گیا، ا ور در پردہ نہیں بلکہ قرآن مجید میں برملا ٹوکا گیا تاکہ نہ صرف ازواج مطہرات کو،بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ آیت میں اس سوال کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جس راز کی بات کو ا فشا کیا گیا تھا وہ کوئی خاص اہمیت رکھتی تھی یا نہیں، اور اس کے افشا سے کسی نقصان کا خطرہ تھا یا نہیں۔ گرفت بجائے خود اس امر پر کی گئی ہے کہ راز کی بات کودوسرے سے بیان کر دیا گیا۔ اس لیے کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو کہ وہ رازوں کی حفاظت میں تساہل برتیں تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہو سکتا ہے۔ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہو گا اتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے۔ ان کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے |
Surah 66 : Ayat 5
عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٲجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَـٰتٍ مُّؤْمِنَـٰتٍ قَـٰنِتَـٰتٍ تَـٰٓئِبَـٰتٍ عَـٰبِدَٲتٍ سَـٰٓئِحَـٰتٍ ثَيِّبَـٰتٍ وَأَبْكَارًا
بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں1، سچی مسلمان، با ایمان2، اطاعت گزار3، توبہ گزار4، عبادت گزار5، اور روزہ دار6، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ
6 | اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے۔ متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ کوئی زاد راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اس بنا پر ر وزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے کہ جب تک افطار کاوقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے۔ ابن جریر نے سوۃ توبہ آیت 12 کی تفسیر میں حضرت عائشہؓ کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذا الاماۃ الصیام،’’ اس امت کی سیاحت (یعنی درویشی) روزہ ہے‘‘۔ اس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں ان کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں۔ ازواج مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد کہ اگر نبی ﷺ تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تمہارے بدلے میں ان کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جن میں یہ اور یہ صفات ہوں گی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواج مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی ﷺ کو اذیت ہو رہی ہے اس کو چھوڑ دو اور اس کے بجائے اپنی ساری توجہات اس کوشش میں صرف کرو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجہ اتم پیدا ہوں |
5 | عبادت گزار آدمی بہرحال کبھی اس شخص کی طرح خدا سے غافل نہیں ہو سکتا جس طرح عبادت نہ کرنے والا انسان ہوتا ہے۔ ایک عورت کو بہترین بیوی بنانے میں اس چیز کا بھی بڑا دخل ہے۔ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے وہ حدود اللہ کی پابندی کرتی ہے، حق والوں کے حق پہنچانتی اور ادا کرتی ہے،اس کا ایمان ہر وقت تازہ اور زندہ رہتا ہے،اس سے اس امر کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ احکام الہی کی پیروی سے منہ نہیں موڑے گی |
4 | تائب کا لفظ جب آدمی کی صفت کے طور پر آؤے تواس کے معنی بس ایک ہی دفعہ توبہ کر لینے والے کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگتا رہے، جس کا ضمیر زندہ اور بیدار ہو، جسے ہر وقت اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کا احساس ہوتا رہے اور وہ ان پر نادم و شرمسار ہو۔ ایسے شخص میں کبھی غرور و تکبر اور نخوت و خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ طبعاً نرم مزاج اور حلیم ہوتا ہے |
3 | اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک،اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان۔ دوسرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی |
2 | مسلم اور مومن کے الفاظ میں ایک ساتھ لائے جاتے ہیں تومسلم کے معنی عملاً احکام الہی پر عمل کرنے والے کے ہوتے ہیں اور مومن سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جوصدق دل سے ایمان لائے۔ پس بہترین مسلمان بیویوں کی اولین خصوصیات یہ ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسولؐ اوراس کے دین پرایمان رکھتی ہوں، اور عملاً اپنے ا خلاق،عادات،خصائل اور برتاؤ میں اللہ کے دین کی پیروی کرنے والی ہوں |
1 | اس سے معلوم ہوا کہ قصور صرف حضرت عائشہ ؓ اور حفصہؓ ہی کا نہ تھا، بلکہ دوسری ازواج ؓ مطہرات بھی کچھ نہ کچھ قصور وار تھیں، اسی لیے ان کے بعد اس آیت میں باقی ازواج کو بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اس قصورکی نوعیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے البتہ احادیث میں اس کے متعلق کچھ تفصیلات آئی ہیں۔ ان کو ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں۔ بخاری میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ’’ نبی ﷺ کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مل جل کر حضورؐ کوتنگ کر دیا تھا۔ (اصل الفاظ ہیں اجتمع نساء النبی ﷺ فی الغیرۃ علیہ)۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ ’’بعید نہیں اگر حضور تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تم سے بہتر بیویاں آپؐ کو عطا فرما دے‘‘۔ ابن ابی حاتم نے حضرت انسؓ کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کا بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اورنبی ﷺ کے درمیان کچھ ناچاقی ہو گئی ہے۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضورؐ کو عطا فرما دے گا۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا (اور یہ بخاری کی ایک روایت کے بموجب حضرت ام سلمہ ؓتھیں) تو انہوں نے مجھے جواب دیا اے عمر، کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو؟ اس پر میں خاموش ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی‘‘۔ مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی تو میں مسجد نبوی میں پہنچا۔ دیکھا لوگ متفکر بیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھا اٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت عائشہ اور حفصہؓ کے ہاں ا پنے جانے اور ان کو نصیحت کرنے کا ذکر کیا، پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا ’’بیویوں کے معاملہ میں آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ اگر آپ ان کو طلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے، سارے ملائکہ اور جبریل و میکائیل آپ کے ساتھ ہیں اور میں اور ابو بکر اور سب اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے میں نے کوئی بات کہی ہو اور اللہ سے یہ امید نہ رکھی ہو کہ وہ میرے قول کی تصدیق فرما دے گا چنانچہ اس کے بعد سورۃ تحریم کی یہ آیات نازل ہو گئیں۔ پھر میں نے حضورؐ سے پوچھا کہ آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں ۔ اس پر میں نے مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر باآواز بلند اعلان کیا کہ حضورؐ نے اپنی بیویوں کو طلا ق نہیں دی ہے۔ بخاری میں حضرت انسؓ اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ روایات منقول ہوئی ہیں کہ حضورؐ نے ایک مہینہ تک کے لٍیے اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد فرما لیا تھا اور اپنے بالا خانے میں بیٹھ گئے تھے۔ 29 دن گزر جانے پر جبریل علیہ السلام نے آ کر کہا آپ کی قسم پوری ہو گئی ہیں، مہینہ مکمل ہو گیا۔ حافظ بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری میں حضرت عائشہؓ کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ ازواج مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک میں خود حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ ، حضرت سودہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓتھیں، اور دوسری میں حضرت زینبؓ، حضرت ام سلمہ ؓ اور باقی ازواج مطہرات شامل تھیں۔ ان تمام روایات سے کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت رسول ﷺ کی خانگی زندگی میں کیا حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی بنا پر یہ ضروری ہوا کہ اللہ تعالٰی مداخلت کر کے ازواج مطہرات کے طرز عمل کی اصلاح فرمائے۔ یہ ازواج اگرچہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں۔ مگر بہرحال تھیں انسان ہی، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہ تھا ۔ کبھی ان کے لیے مسلسل عسرت کی زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا تھا اور وہ بے صبر ہو کر حضورؐ سے نفقہ کا مطالبہ کرنے لگتیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ احزاب کی آیات 28 ۔ 29 نازل فرما کر ان کو تلقین کی اگر تمہیں دنیا کی خوشحالی مطلوب ہے تو ہمارا رسول تم کو بخیر و خوبی رخصت کر دے گا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؓ اور دار آخرت کو چاہتی ہو تو پھر صبر و شکر کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کرو جو رسول کی رفاقت میں پیش آئیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد چہارم،الاحزاب حاشیہ 41،اور دیباچہ سورہ احزاب صفحہ 84)۔ پھر کبھی نسائی فطرت کی بنا پر ان سے ایسی باتوں کا ظہور ہوجاتا تھا جو عام انسانی زندگی میں معمول کے خلاف نہ تھیں، مگر جس گھر میں ہونے کا شرف اللہ تعالٰی نے ان کو عطا فرمایا تھا، اس کی شان اور اس کی عظیم ذمہ داریوں uسے وہ مطابقت نہ رکھتی تھیں۔ ان باتوں سے جب یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی خانگی زندگی کہیں تلخ نہ ہو جائے اور اس کا اثر ان کار عظیم پر مترتب نہ ہو جو ا للہ تعالٰی حضورؐ سے لے رہا تھا، قرآن مجید میں یہ آیات نازل کر کے ان کی صلاح فرمائی گئی تاکہ ازواج مطہرات کے اندر اپنے اس مقام اور مرتبے کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوجو اللہ کے آخری رسولؐ کی رفیق زندگی ہونے کی حیثیت سے ان کو نصیب ہوا تھا، اور وہ اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح اور اپنے گھر کو عام گھروں طرح نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس آیت کا پہلا ہی فقرہ ایسا تھا کہ اس کو سن کر ازواج مطہرات کے دل لرز اٹھے ہوں گے۔ اس ارشاد سے بڑھ کر ان کے لیے تنبیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ ’’اگرنبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ اس کو تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے‘‘۔ اول تونبی ﷺ سے طلاق مل جانے کا تصور ہی ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اس پر یہ بات مزید کہ تم سے امہات المؤمنین ہونے کا شرف چھن جائے گا اور دوسری عورتیں جو اللہ تعالٰی نبی ﷺ کی زوجیت میں لائے گا وہ تم سے بہتر ہوں گی۔ اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ازواج مطہرات سے پھر کبھی کسی ایسی بات کا صدور ہوتا جس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے گرفت کی نوبت آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بس دو ہی مقامات ہم کوایسے ملتے ہیں جہاں ان برگزیدہ خواتین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ ایک سورۃ احزاب دور دوسرے یہ سورہ تحریم |