Ayats Found (2)
Surah 33 : Ayat 32
يَـٰنِسَآءَ ٱلنَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ ٱلنِّسَآءِۚ إِنِ ٱتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِٱلْقَوْلِ فَيَطْمَعَ ٱلَّذِى فِى قَلْبِهِۦ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو1 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو2
2 | یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالٰی؟صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔ اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پرآ کر گائے ناچے، تھرکے ،بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess)بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔ |
1 | یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جوحضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو؟ کیا اللہ تعالٰی کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں، اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے؟ رہا یہ فقرہ کہ ’’تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ |
Surah 33 : Ayat 34
وَٱذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِى بُيُوتِكُنَّ مِنْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ وَٱلْحِكْمَةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا
یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں بے1 شک اللہ لطیف اور باخبر ہے2
2 | اللہ لطیف ہے۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی |
1 | اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے،جس کے دو معنی ہیں : ’’یاد رکھو‘‘ اور’’بیان کرو‘‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو،تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے، اس لیے تمہاری ذمّہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو، جو کچھ تم سُنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔ اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مُراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ مگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آ جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سُنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سیرتِ پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھے وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ(جو تلاوت کی جاتی ہیں)کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مُراد صرف قرآن ہے، کیونکہ ’’تلاوت‘‘ کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے اُن منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَتَّبَعُوْ امَا تَتْلُو االشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔’’ اُنہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سُناتے تھے)شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب ا للہ کی آیات سُنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔ |