Ayats Found (1)
Surah 33 : Ayat 6
ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْۖ وَأَزْوَٲجُهُۥٓ أُمَّهَـٰتُهُمْۗ وَأُوْلُواْ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفْعَلُوٓاْ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِكُم مَّعْرُوفًاۚ كَانَ ذَٲلِكَ فِى ٱلْكِتَـٰبِ مَسْطُورًا
بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے1، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں2، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو3 یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے
3 | اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہے، اُن کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدّم ہیں۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ، بال بچوں، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہُبّہ یا وقف یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کی رُو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی، البتہ ایک شخص ہدیے، تحفے یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ |
2 | اُسی خصوصیّت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھما دیا، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ابو منصُور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذاالشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فا یّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھاس من شرف امّھات المؤمنین،(اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو)۔ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہّرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو، اور رسولِ پاکؐ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تروبرتر ہے، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دُنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالٰی کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ |
1 | یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں، اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔ |