Ayats Found (15)
Surah 2 : Ayat 263
۞ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًىۗ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَلِيمٌ
ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اُس کی صفت ہے1
1 | اس ایک فقرے میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تمہاری خیرات کا حاجت مند نہیں ہے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بُردبار ہے، اس لیے اُسے پسند بھی وُہی لوگ ہیں ، جو چھچورے اور کم ظرف نہ ہوں، بلکہ فراخ حوصلہ اور بردبار ہوں۔ جو خدا تم پر زندگی کے اسباب و وسائل کا بے حساب فیضان کر رہا ہے اور تمہارے قصوروں کے باوجود تمہیں بار بار بخشتا ہے، وہ ایسے لوگوں کو کیونکر پسند کر سکتا ہے ، جو کسی غریب کو ایک روٹی کھلادیں، تو احسان جَتا جَتا کر اس کی عزّتِ نفس کو خاک میں ملا دیں۔ اسی بنا پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے روز شرفِ ہمکلامی اور نظر عنایت سے محرُوم رکھے گا، جو اپنے عطیے پر احسان جَتاتا ہو |
Surah 2 : Ayat 267
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِۖ وَلَا تَيَمَّمُواْ ٱلْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِـَٔـاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے1
1 | ظاہر ہے کہ جو خود اعلیٰ درجہ کی صفات سے متّصف ہو، وہ بُرے اوصاف رکھنے والوں کو پسند نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فیاض ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشش وعطا کے دریا بہا رہا ہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ وہ تنگ نظر، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں سے محبت کرے |
Surah 4 : Ayat 131
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق
Surah 10 : Ayat 68
قَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًاۗ سُبْحَـٰنَهُۥۖ هُوَ ٱلْغَنِىُّۖ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَـٰنِۭ بِهَـٰذَآۚ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے1 سبحان اللہ!2 وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے3 تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر کیا دلیل ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟
3 | یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں: ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی جوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھران کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کےساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب، بہت سی کمزوریوں، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی ان تمام عیوب، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کررہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگراس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ |
2 | سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہارِ حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ”اللہ تعالٰی ہر عیب سے منزّہ ہے“۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے۔ لوگوں کے اِس قول پراظہارِ حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے، ا س کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے۔ |
1 | اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہلِ مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خد اکا بیٹا ٹھیرا لیا۔ |
Surah 14 : Ayat 8
وَقَالَ مُوسَىٰٓ إِن تَكْفُرُوٓاْ أَنتُمْ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِىٌّ حَمِيدٌ
اور موسیٰؑ نے کہا کہ 1"اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے"
1 | اس جگہ حضرت موسٰیؑ اور اُن کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہلِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں۔ اب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفرانِنعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ تعالٰی اپنی جس نعمت کی قدر کرنے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرمارہا ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اُس کی یہ نعمت ہے کہ اُس نے محمد عربی ﷺ کو اُن کے درمیان پیدا کیا اور آپ کے زریعہ سے اُن کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضورﷺ بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمہ واحدہ تعطونیھا تملکون بھا العرب وتدین لکم بھا العجم۔ میری ایک بات مان لو، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہو جائیں گے۔ |
Surah 22 : Ayat 64
لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ
اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے بے شک وہی غنی و حمید ہے1
1 | وہی ’’ غنی‘‘ ہے ، یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور وہی ’’حمید‘‘ ہے ، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے ، خواہ کوئی حمد کرے یا نہ کرے۔ |
Surah 27 : Ayat 40
قَالَ ٱلَّذِى عِندَهُۥ عِلْمٌ مِّنَ ٱلْكِتَـٰبِ أَنَا۟ ءَاتِيكَ بِهِۦ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَۚ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُۥ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّى لِيَبْلُوَنِىٓ ءَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّى غَنِىٌّ كَرِيمٌ
جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا "میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں1" جونہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اٹھا "یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں2 اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے3"
3 | یعنی وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ زرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اورنہ کسی کی ناشکری واحسان فراموشی سے یک سرموکوئی کمی آتی ہے۔ وہ آپ اپن ہی بل بوتے پر خدائی کررہا ہے، بندوں کے ماننے یانہ ماننے پراس کی خدائی منحصر نہیں ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسٰیؑ کی زبان سے نقل کی گئی ہے کہ انّ تَکفُرُوااَنتُم وَمن فیِ الاَرضِ جمیعاََ فاِنّ اللہَ لغنیٌّ حمیدٌ۔ ’’اگر تم اورساری دنیا والے مل کربھی کفر کریں تواللہ بےنیازاور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘ (ابراہیم۔ آیت ۸)۔ اوریہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے جوصحیح مسلم میں وار ہوئی ہے کہ: یعقول اللہ تعالیٰ یا عبادی لوانّ اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم مازاد ذالک فی ملکی شیئا۔ یاعبادی لوان اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانواعلے افجوقلب رجل منکم مانقص ذٰالک فی ملکی شیئا۔ یا عبادی انما ھی اعمالکم احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا۔ فمن وجد خیرافلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذالک فلا یلومن الا نفسہ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اورجن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جلیے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی اضافہ نہ ہوجائیگا۔اے میرے بندوں، اگر اور سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص لے دل جیسے ہوجاؤ تومیری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہو جائے گی۔ اے میرے بندو، یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتاہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہواسے چاہیے کہ اللہ کا شکراداکرے اورجسے کچھ اورنصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کوملامت کرے۔ |
2 | قرآن مجید کا اندازبیان اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ اُس دیو ہیکل جن کے دعوے کی طرح اس شخص کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی نہ رہا بلکہ فی الواقع جس وقت اس نے دعویٰ کیا اسی وقت ایک ہی لحظہ میں وہ تخت حضرت سلیمانؑ کے سامنے رکھا نظرآیا۔ ذرااِن الفاظ پرغور کیجیے:’’اس شخص نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے آتا ہوں۔ جونہی کہ سلیمانؑ نے اسے اپنے پاس رکھا دیکھا‘‘۔ جوشخص بھی واقعہ کے عجیب وغریب ہونے کاتصور ذہن سے نکال بجائے خود اس عبارت کوپڑھے گاوہ اس سے یہی مفہوم لے گا کہ اس شخص کے یہ کتنے ہی دوسرے لمحہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا اس دعویٰ کیاتھا۔ اس سیدھی سی بات کو خوامخواہ تاویل کے خراد پرچڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تخت کو دیکھتے ہی حضرت سلیمانؑ کایہ کہنا کہ ’’ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتاہوں‘‘اسی صورت میں برمحل ہوسکتا ہے جب کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو۔ ورنہ اگر واقعہ یہ ہوتا کہ ان کا ایک ہوشیار ملازم ملکہ کےلیے جلدی سے ایک تخت بنالایا یا بنوالایا، تو ظاہر ہے کہ یہ ایسی کوئی نادربات نہ ہوسکتی تھی کہ اس پرحضرت سلیمان ؑ بے اختیار ھٰذا من فضل ربی پکار اُٹھتے اوران کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتاکہ اتنے جلدی مہمان عزیز کےلیے تخت تیار ہوجانے سے کہیں میں شاکر نعمت بننے کے بجائے کافرِنعمت بن جاؤں۔ آخر اتنی سی بات پر کسی مومن فرمانروا کو اتنا غرور اورکبرنفس لاحق ہوجانے کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے، خصوصاََ جبکہ وہ ایک معمولی مومن نہ ہو بلکہ اللہ کا نبی ہو۔ اب رہی یہ بات کہ ٖڈیڑھ ہزار میل سے ایک تخت شاہی پلک جھپکتے کس طرح اُٹھ کرآگیا، تواس کا مختصر جواب یہ ہے کہ زمان ومکان اورمادہ وحرکت کے جوتصورات ہم نے اپنے تجربات ومشاہدات کہ بنا پرقائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پرمنطبق ہوتے ہیں۔ خدا کےلیے نہ یہ تصورات صحیح ہیں اورنہ وہ ان حدود سے محدود ہے۔ اس کی قدرت ایک معمولی تخت تو درکنار، سورج اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کوآن کی آں میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کراسکتی ہے۔ جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عظیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنیٰ اشارہ ہی ملکہء سبا کے تخت کوروشنی کی رفتا سے چلادینے کےلیے کافی تھا۔ آخر اسی قرآں میںیہ زکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک رات اپنےبندے محمدﷺ مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اورواپس بھی لے آیا |
1 | اس شخص کے بارے میں قطعی پریہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا، اوراس کے پاس وہ کس خاص قسم کاعلم تھا، اوراس کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے جس کاعلم اس کے پاس تھا۔ ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں۔ مفسرین میں سے بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھا اوربعض کہتے ہیں کہ وہ کوئی انسان تھا۔ پھراُس انسان کی شخصیت کے تعین میں بھی ان کے درمیان اختلاف ہے۔ کوئی آصف بن برخیاہ(Barchieh Asaf-B-) کا نام لیتا ہے جو یہودی ربیّوں کی روایات کے مطابق رئیس الرجال(Prince of men) تھے، کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت خضر تھے، کوئی کسی اورکانام لیتا ہے، اورامام رازی کواصرار ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان ؑ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی قابل اعتماد ماخز نہیں ہے، اورامام رازی کی بات تو قرآن کے سیاق وسباق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور کوئی کتاب شریعت مراد لیتا ہے۔ لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں اورایسے ہی قیاسات اُس علم کے بارے میں بھی بلادلیل وثبوت قائم کرلیے گئے ہیں جوکتاب سے اس شخص کوحاصل تھا۔ ہم صرف اُتنی ہی بات جانتے اورمانتے ہیں جتنی قرآن میں فرمائی گئی ہے، یا جواس کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے۔ وہ شخص بہرحال جن کی نوع میں سے نہ تھا اوربعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو۔ اس کے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب (الکتاب) سے ماخوز تھا۔ جن اپنے وجود کی طاقت سے اس تخت کوچند گھنٹوں میں اُٹھا لانے کا دعویٰ کررہا تھا۔ یہ شخص علم کی طاقت سے اس کوایک لحظہ میں اُٹھالایا۔ |
Surah 31 : Ayat 26
لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے1، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے2
2 | اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے |
1 | یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا، یا اسکے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اُس کی مِلک ہے۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں۔ |
Surah 31 : Ayat 12
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی1 کہ اللہ کا شکر گزار ہو2 جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے3
3 | یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفراس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔ |
2 | یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان اپنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری واحسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اوراس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔ |
1 | شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام،ج ۲، ص ۶۷۔۶۹۔ اُسُد الغابہ ،ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔ |
Surah 35 : Ayat 15
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ أَنتُمُ ٱلْفُقَرَآءُ إِلَى ٱللَّهِۖ وَٱللَّهُ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ
لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو1 اور اللہ تو غنی و حمید ہے2
2 | ’’غنی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اور ’’حمید‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد(شکر اور تعریف) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی سے کسی کو نفع نہ پہنچائے۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہوگا مگر حمید نہ اسے صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے۔ اللہ تعالٰی چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیوں کہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے۔ |
1 | یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا۔ نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو۔ لہٰذا تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے |