Ayats Found (2)
Surah 10 : Ayat 105
وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے1، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو2
2 | یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں،اس کی صفات میں،اس کے حقوق میں اوراس کے اختیارات میں کسی طور پرغیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو،یا کوئی دوسراانسان ہو،یا انسانوں کو کوئی مجموعہ ہو،یا کوئی روح ہو،جن ہو،فرشتہ ہو،یا کوئی مادی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔پس مطالبہ صرف اِس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جوکسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں۔عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی،انفرادی طرزِزندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی،معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی،عدالت خانوں میں بھی،قانون سازی کی مجلسوں میں بھی،سیاست کے ایوانوں میں بھی،معیشت کے بازاروں میں بھی،غرض ہر جگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقی الگ کرلے جنہوں نے اپنے افکارو اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور نا خداپرستی کی آمیزش پرقائم کر رکھا ہے۔توحید کا پیروزندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرنہیں چل سکتا،کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!پھرمطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اورسخت اجتناب کا ہے۔بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔بعض نادان لوگ’’شرک خفی‘‘کو’’شرک خفیف‘‘سمجھتے ہیں اوران کا گمان یہ کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں،پوشیدہ و مستور کے ہیں۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کردن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جوآستین میں چھپا ہُوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کررہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کراندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کرتی رہے؟جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہ دے کہ یہ شرک ہے،اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہُوا ہے۔مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیاتِ توحید کا عمیق فہم درکار ہےوہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کوان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیرمحسوس طریقے سےدین کے مغزکوکھا جاتاہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ |
1 | اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔بات اِن الفاظ میں بھی ادا ہوسکتی تھی کہ تو’’اِس دین کو اختیارکرلے‘‘یا’’اس دین پر چل‘‘یا’’اس دین کا پیروبن جا‘‘۔مگراللہ تعالٰی کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزورالفاظ سے نہ ہو سکتا تھا۔لہذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایاکہ’’اَقِم وَجھق لِلّدِینِ حَنِیفًا‘‘۔ اقم وجھق کے لفظی معنی ہیں’’اپنا چہراجمادے‘‘۔اس کامفہوم یہ ہے کہ تیرارُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ڈگمگاتااور ہِلتاڈُلتا نہ ہو۔کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتا رہے۔بالکل ناک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے۔یہ نبدش بجائے خود بہت چُست تھی،مگراس پربھی اکتفا نہ کیا گیا۔اس پرایک اور قید حنیفا کی بڑھائی گئی۔حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کرایک طرف کا ہورہا ہو۔پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو،اِس بندگی خدا کے طریقے کو،اس طرزِزندگی کو کہ پرستش،بندگی،غلامی،اطاعت،فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے،ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کرکہ کِسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان ورحجان بھی نہ ہو،اس راہ پرآکر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پردنیا چلی جا رہی ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 87
وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَۖ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں1 اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | یعنی اُن کی تبلیغ واشاعت سے اوران کےمطابق عمل کرنےسے۔ |