Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 120
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو1 صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
1 | مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناراضی کا سبب یہ تو ہے نہیں کہ وہ سچے طالبِ حق ہیں اور تم نے ان کے سامنے حق کو واضح کر نے میں کچھ کمی کی ہے۔ وہ تو اس لیے تم سے ناراض ہیں کہ تم نے اللہ کی آیات اور اس کے دین کے ساتھ وہ منافقانہ اور بازی گرانہ طرزِ عمل کیوں اختیار نہ کیا، خدا پرستی کے پردے میں وہ خود پرستی کیوں نہ کی ، دین کے اُصُول و احکام کو اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے میں اُد دیدہ دلیری سے کیوں نہ کام لیا ، وہ ریاکاری اور گندم نمائی و جو فروشی کیوں نہ کی، جو خود ان کا اپنا شیوہ ہے۔ لہٰذا انھیں راضی کرنے کی فکر چھوڑ دو، کیونکہ جب تک تم ان کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کر لو، دین کے ساتھ وہی معاملہ نہ کرنے لگو، جو خود یہ کرتے ہیں، اور عقائد و اعمال کی اُنہیں گمراہیوں میں مُبتلا نہ ہو جا ؤ ، جن میں یہ مبتلا ہیں، اُس وقت تک ان کا تم سے راضی ہونا محال ہے |
Surah 2 : Ayat 145
وَلَئِنْ أَتَيْتَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ بِكُلِّ ءَايَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَۚ وَمَآ أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍۚ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
تم ان اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں، اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہے، او ر اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا1
1 | ”مطلب یہ ہے کہ قبلے کے متعلق جو حُجَّت و بحث یہ لوگ کرتے ہیں، اُس کا فیصلہ نہ تو اِس طرح ہوسکتا ہے کہ دلیل سے انہیں مطمئن کر دیا جائے، کیونکہ یہ تعصّب اور ہٹ دھرمی میں مُبتلا ہیں اور کسی دلیل سے بھی اُس قبلے کو چھوڑ نہیں سکتے، جسے یہ اپنی گروہ بندی کے تعصّبات کی بنا پر پکڑے ہوئے ہیں۔ اور نہ اس کا فیصلہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ تم ان کے قبلے کو اختیار کر لو، کیونکہ ان کو کوئی ایک قبلہ نہیں ہے، جس پر یہ سارے گروہ متفق ہوں اور اسے اختیار کر لینے سے قبلے کا جھگڑا چُک جائے۔ مختلف گروہوں کے مختلف قبلے ہیں۔ ایک کا قبلہ اختیار کر کے بس ایک ہی گروہ کو راضی کر سکو گے۔ دُوسروں کا جھگڑا بدستور باقی رہے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے تمہارا یہ کام ہے ہی نہیں کہ تم لوگوں کو راضی کرتے پھرو اور ان سے لین دین کے اُصُول پر مصالحت کیا کرو۔ تمہارا کام تو یہ ہے کہ جو علم ہم نے تمہیں دیا ہے، سب سے بے پروا ہو کر صرف اُسی پر سختی کے ساتھ قائم ہو جا ؤ ۔ اس سے ہٹ کر کسی کو راضی کرنے کی فکر کرو گے، تو اپنے پیغمبری کے منصب پر ظلم کرو گے اور اُس نعمت کی ناشکری کرو گے، جو دُنیا کا امام بنا کر ہم نے تمہیں بخشی ہے |
Surah 6 : Ayat 116
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِى ٱلْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں1
1 | یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد، تخیلات ، فلسفے، اُصُولِ زندگی اور قوانینِ عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کے راستہ ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطورِ خود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے۔ لہٰذا کسی طالبِ حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دُنیا کے بیشتر انسان کِس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پُوری ثابت قدمی کے ساتھ اُس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے |
Surah 6 : Ayat 117
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِۦۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ
در حقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے
Surah 13 : Ayat 37
وَكَذَٲلِكَ أَنزَلْنَـٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّاۚ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا وَاقٍ
اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑسے تم کو بچا سکتا ہے
Surah 18 : Ayat 28
وَٱصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِٱلْغَدَوٲةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُۥۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُۥ عَن ذِكْرِنَا وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ وَكَانَ أَمْرُهُۥ فُرُطًا
اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟1 کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو2 جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے3
3 | کَانَ امْرُہٗ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے۔‘‘ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود نا آشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود نا آشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے اسی میں مُطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔ |
2 | یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘ کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ |
1 | ابن عباس کی روایت کے مطابق، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلالؓ اور صہیبؓ اور عَمَّارؓ اور خَبّابؓ اور ابن مسعودؓ جیسے غریب لوگ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر سنانا دراصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت، جس پر تم پھول رہے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں اخلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا۔ وہ حضرت نوحؑ سے کہتے تھے وَمَا نَرٰ کَ اتَّبَعَکَ اِ لَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ۔ ’’ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘ اور حضرت نوحؑ کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا، ’’میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا‘‘، اور وَلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْ دَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً، ’’ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے۔‘‘ (ہود آیات ۲۷۔۹۲۔۳۱۔ نیز سورہ اَنعام، آیت ۵۲۔ اور سورہ الحجر، آیت ۸۸) |
Surah 25 : Ayat 52
فَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَجَـٰهِدْهُم بِهِۦ جِهَادًا كَبِيرًا
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر1 کرو
1 | جہاد کبیر کے تین معنی ہیں ۔ ایک ، انتہائی کوشش جس میں آدمی سعی و جاں فشانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے ۔ دوسرے ، بڑے پیمانے پر جد و جہد جس میں آدمی اپنے تمام ذرائع لاکر ڈال دے ۔ تیسرے ، جامع جدوجہد جس میں آدمی کوشش کا کوئی پہلو اور مقابلے کا کوئی محاذ نہ چھوڑے ، جس جس محاذ پر غنیم کی طاقتیں کام کر رہی ہوں اس پر اپنی طاقت بھی لگا دے ، اور جس جس پہلو سے بھی حق کی سر بلندی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہو کرے ۔ اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے اور جان و مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی |
Surah 33 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ ٱتَّقِ ٱللَّهَ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبیؐ1! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے2
2 | تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالٰی نے حضورؐ کے اِن اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلافِ مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔ |
1 | جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیپاچے میں بیان کرچکے ہیں‘یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زیدؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دے چکے تھے اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ محسوس فرماتےتھے اوراللہ تعالٰی کا اشارہ بھی یہی تھا مُنہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلّیت کے رسوم واَوہام پرضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے‘اب آپ کو خود آگے بڑھ کراپنے مُنہ بولے بیٹے (زیدؓ)کی مطّلقہ سے نکاح کرلینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پرٹوٹ جائے۔لیکن جس وجہ سے حضورؐ اس معاملہ میں قدم اُٹھاتے ہوئےجھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھاکہ اس سے کفارو منافقین کو‘جو پہلے ہی آپؐ کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بھیٹے تھے‘آپ کےخلاف پروپگینڈا کرنے کے لیے ایک زبردست ہتھیارمل جائے گا۔یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا‘بلکہ اس بنا پرتھاکہ اس سے اسلام کوزک پہنچے گی‘دشمنوں کے پروپگینڈے سے متاثر ہوکربہت سے لوگ جواسلام کی طرف میلان رکھتے ہیںبدگمان ہوجائیں گے‘بہت سے جانبدارلوگ دشمنوں میں شامل ہوجائیں گے‘اورخود مسلمانوں میں سے کمزور عقل وذہن کے لوگ شکوک و شبات میں پڑجائیں گے اس لیے حضورؐ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیّت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطرایسا قدم اُٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم ترمقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔ |
Surah 33 : Ayat 48
وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَ وَدَعْ أَذَٮٰهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے
Surah 68 : Ayat 8
فَلَا تُطِعِ ٱلْمُكَذِّبِينَ
لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ