1 | زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں اللہ تعالی کی قدرت اورحکمت کے جوجو حیرت انگیزکمالات کارفرماہیں ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے: جلد دوم، النحل حاشیہ 53 الف۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ 17۔ الشعراء، حاشیہ 5۔ الروم حاشیہ 35۔ جلد چہارم ، فاطر، حاشیہ 19۔ یٰسین، حاشیہ 29۔ المومن، حاشیہ 20۔ الزخرف، حواشی 10۔11۔ جلد پنجم، الواقعہ، حواشی 28 تا 30۔ ان آیات میں پے درپے بہت سے آثاروشواہد کو پیش کر کے قیامت اورآخرت کےمنکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم آنکھیں کھول کرزمین اورپہاڑوں اور خود اپنی پیدائش اوراپنی نینداوربیداری اورروزوشب کے اس انتظام کو دیکھو، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اورآسمان کے چمکتے ہوئےسورج کو دیکھو، بادلوں سے برسنے والی بارش اوراس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو ، تو تمہیں دو باتیں ان میں نمایاں نظر آئیں گی۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں آ سکتا ہے، نہ اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہرچیز کے اندر ایک عظیم حکمت کام کررہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں ہو رہا ہے۔ اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا ہے کہ جو قدرت ان ساری چیزوں کو وجود میں لانے پر قادر ہے وہ انہیں فنا کر دینے اوردوبارہ کسی اور صورت میں پیدا کر دینے پر قادرنہیں ہے۔ اوریہ بات بھی صرف ایک بے عقل ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں کوئی کام بھی بے مقصد نہیں کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں انسان کو سمجھ بوجھ ، خیروشر کی تمیز، اطاعت وعصیان کی آزادی ، اوراپنی بے شمارمخلوقات پر تصرف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں، انسان اس کی دی ہوئی چیزوں کو اچھی طرح استعمال کرے یا بری طرح، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، کوئی بھلائیاں کرتے کرتے مرجائے تو بھی مٹی میں مل کر ختم ہو جائے گا اور برائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں مل کر ختم ہو جائے گا، نہ بھلے کو اس کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا، نہ برے سے اس کی برائی پر کوئی باز پرس ہو گی۔ زندگی بعد موت اورقیامت وآخرت پر یہی دلائل ہیں جو جگہ جگہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طورپر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حاشیہ 7۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 9۔ الروم، حاشیہ، 6۔ جلد چہارم، سبا، حواشی 10 ،12۔ الصافات، حواشی 8۔9) |