Ayats Found (1)
Surah 47 : Ayat 19
فَٱعْلَمْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَٮٰكُمْ
پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی 1اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے
1 | اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھاۓ ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے در گزر فرما۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’اے نبی، اپنے قصور کی معافی مانگو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کا فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پاۓ، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’میں ہر روز سو بار اللہ استغفار کر تا ہوں |