Ayats Found (1)
Surah 40 : Ayat 55
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَـٰرِ
پس اے نبیؐ، صبر کرو1، اللہ کا وعدہ بر حق ہے2، اپنے قصور کی معافی چاہو3 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو4
4 | یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گۓ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 50۔73۔74۔182۔ جلد دوم،ص 371۔519۔587۔588۔634 تا 637۔ جلد سوم، ص 138۔420۔421۔703 تا 708۔740 تا 742۔ 754 تا 755) |
3 | جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جاۓ جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جاۓ جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جاۓ۔ یہ خواہش بجاۓ خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالٰی نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالٰی کو آپ کے مرتبے سے فروتر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ |
2 | اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘‘۔ |
1 | یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ |