Ayats Found (1)
Surah 110 : Ayat 3
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَٱسْتَغْفِرْهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو1، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو2، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے
2 | یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اُس نے تمہارے سپرد کی تھی اُس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اُس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو، اُس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اُس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بند گی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں، اُس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہیں آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے ربّ کا جو حق تھا وہ میں نے پورے کا پورا ادا کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کر سکا، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اُس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اِس غَرّے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اُس پر تھا وہ اُس نے ادا کر دیا ہے۔ اللہ کا حق اِس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اُسے ادا کر سکے۔
اللہ تعالٰی کا یہ فرمان مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمتِ دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتیں رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو، اُسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخرو غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنے رب کے سا منے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمدو تسبیح اور توبہ استغفار کریں |
1 | حمد سے مراد اللہ تعالٰی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اُس کا شکر ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالٰی کو ہر لحاظ سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے ربّ کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اِس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اِس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اِس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے، بلکہ اِس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اِس پر اُس کا شکر ادا کرو، اور قلب و زبان سے اِس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دو کہ اُس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اُس پر منحصر تھا۔ اِس کے بر عکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرف پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اِس کے علاوہ تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی مُحِیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اُس سے صادر ہو سکتا |