Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 162
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت1، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے
1 | اصل میں لفظ ”نُسُک“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی قربانی کے بھی ہیں اور اس کا اطلاق عمومیّت کے ساتھ بندگی و پرستش کی دُوسری تمام صُورتوں پر بھی ہوتا ہے |
Surah 6 : Ayat 164
قُلْ أَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْغِى رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَىْءٍۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالاں کہ وہی ہر چیز کا رب ہے1؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا2، پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، اُس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا
2 | یعنی ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے ، اور ایک عمل کی ذمہ داری دُوسرے پر نہیں ہے |
1 | یعنی کائنات کی ساری چیزوں کا ربّ تو اللہ ہے، میرا ربّ کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے ؟ کس طرح یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو ، اور کائنات کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اُسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعُوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور ربّ تلاش کروں؟ کیا پوری کائنات کے خلاف میں اکیلا ایک دُوسرے رُخ پر چل پڑوں |
Surah 112 : Ayat 1
قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ
کہو1، وہ اللہ ہے2، یکتا3
3 | نحوی قواعد کی رُو سے ھُوَ اللہُ اَحَدٌ ۔ ‘‘کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں، مگر ہمارے نزدیک اُن میں سے جو ترکیب اِس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مُبْتَدا ہے، اَللہُ اس کی خبر ہے، اور اَحَد ٌاس کی دوسری خبر۔ اِس ترکیب کے لحاظ سے اِس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ”وہ (جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو) اللہ ہے، یَکتا ہے۔“ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ ”وہ اللہ ایک ہے۔“ یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اِس جملہ میں اللہ تعالٰی کے لیے لفظِ اَحَد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اِس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ معمولاً یہ لفظ یا تو مُضاف یا مُضاف اِلَیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے یَوُمُ الْاَحَد ۔ ‘‘، ہفتے کا پہلا دن، اور فَا بْعَثُوْٓ ا اَحَدَکُمْ ۔ ‘‘،” اپنے کسی آدمی کو بھیجو۔“ یا نَفْیِ عام کے لیے استعمال ہوتا ہے ، جیسے مَا جَآءَ نِیْٓ اَحَدٌ ۔ ‘‘” میرے پاس کوئی نہیں آیا۔“ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے، جیسے ھَلْ عندک اَحَدٌ؟ ‘‘” کیا تمہارے پاس کوئی ہے؟“ یا اِسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے، جیسے اِنْ جَاءک احدٌ ،” اگر تمہارے پاس کوئی آئے۔“ یا گِنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے اَحَدَ ، اِثنانِ، اَحَدَ عَشر، ایک ، دو ، گیارہ۔ اِن استعمالات کے سوا نزولِ قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اِس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض لفظ اَحَد و صف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بو لا گیا ہو، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالٰی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اس غیر معمولی طرزِ بیان سے خود بخود یہ ظاہر ہوتاہے کہ یَکتا و یَگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے، موجودات میں سے کوئی دوسرا اِس صفت سے مُتَصِف نہیں ہے۔ وہ ایک ہے، کوئی اُس کا ثانی نہیں۔ پھر جو سوالات مشرکین اور اہلِ کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ربّ کے بارے میں کیے تھے اُن کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ ھُوَ اللہُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر اُن کا جواب کس طرح دیا گیا ہے: اَوّلًا، اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا ربّ ہے ، کسی دوسرے کا ربُوبیت میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اور چونکہ اِلٰہ (معبود) وہی ہو سکتا ہے جو ربّ (مالک و پروردگار) ہو ، اِس لیے اُلوہیت میں بھی کوئی اُس کا شریک نہیں۔ ثانیاً ، اِس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے، تخلیق کے اِس کام میں کوئی اور اُس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے، نظامِ عالَم کا مدبّر و منتظم ہے، اپنی مخلوقات کا رزق رساں ہے، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے۔ خدائی کے اِن کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعًا کوئی حصّہ نہیں ہے۔ ثالثًا ، چونکہ اُنہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اُس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جِنس سے ہے؟ کس سے اُس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اُس کے بعد کون اُس کا وارث ہو گا؟ اس لیے اُن کے اِن سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالٰی کے لیے صرف ایک لفظِ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ (1) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اُس سے پہلے کوئی خدا تھا، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہو گا۔ (2) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اُس کا ہم جنس نہیں۔(3) اُس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ وہ اجزاء سے مُرکَّب وجود نہیں ہے جو قابلِ تجزیہ و تقسیم ہو، جو کوئی شکل اور صورت ر کھتا ہو، جو کسی جگہ رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو، جس کا کوئی رنگ ہو، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور رجہت ہو، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیُّر و تبدُّل ہوتا ہو۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور مُنَزَّہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے۔ (اِس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں ”واحد“ کا لفظ بالکل اُسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ” ایک“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے، جیسے ایک آدمی، ایک قوم، ایک ملک، ایک دُنیا، حتّٰی کہ ایک کائنات۔ اور کسی مجموعہ کے ہر جُز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اِسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالٰی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اِلٰہ ِ واحد، ایک ہی معبود، یا اَللہُ الْوَ احِدُ الْقَھَّارُ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے، کہا گیا ہے، محض واحد کہیں نہیں کہا گیا، کیونکہ یہ لفظ اُن چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں۔ بخلاف اِس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے اَحَد کا لفظ مطلقًا استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ و جود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے، جس کی وَحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے |
2 | یعنی میرے جس رب سے تم تعارُف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے۔ یہ اُن سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا ربّ لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت، دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر، میں تم سے کروانا چاہتا ہوں، بلکہ وہ ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو۔ ” اللہ“ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالقِ کائنات کے لیے یہی لفظ استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اِس کا اِطلاق نہیں کرتے تھے۔ دوسرے معبودوں کے لیے اُن کے ہاں اِلٰہ کا لفظ رائج تھا۔ پھر اللہ کے بارے میں اُن کے جو عقائد تھے اُن کا اظہار اُس موقع پر خوب کھُل کر ہو گیا تھا جب اَبْرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اُس وقت خانہ ٔ کعبہ میں 360 اِلہٰوں کے بت موجود تھے، مگر مشرکین نے اُن سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اِس بلا سے اُن کو بچائے۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ اِس نازک وقت میں اُن کی مدد نہیں کر سکتا۔ کعبے کو بھی وہ اُن اِلہٰوں کی نسبت سے بیتُ الْآ لِہَہ نہیں، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیتُ اللہ کہتے تھے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر: سُورۂ زُخْرُف میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ اِنہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “(آیت 87)۔ سُورۂ عَنْکَبُوت میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مُسخّر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اُس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے“(آیات 61 تا 63)۔ سورۂ مومنون میں ہے: ”اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اِس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔۔۔۔۔۔ اِن سے پوچھو ساتوں آسمان اور عرشِ عظیم کا ملک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے“ (آیات 84 تا 89)۔ سورۂ یونس میں ہے: ”اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں (جو تمہیں حاصل ہیں ) کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اِس نظمِ عالَم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ“(آیت 31)۔ اِسی سورۂ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ”جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحان و دشاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھِر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کر نے لگتے ہیں“(آیات 22 و 23)۔ یہی بات سورۂ بنی اسرائیل میں یوں دُہرائی گئی ہے: ”جب سمندر میں تم پرمصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تُم اُس سے مُنہ موڑ جاتے ہو “ (آیت 67)۔ اِن آیات کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا رب کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بُلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا ھُوَ اللہُ ، وہ اللہ ہے۔ اِس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبّر و منتظم مانتے ہو، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا ربّ ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں۔ اِس جواب میں اللہ تعالٰی کی تمام صفات ِ کمالیہ اپنے آپ آجاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابلِ تصوّر ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اُس کا انتظام اور اُس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا، اُس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو، سنتا اور دیکھتا نہ ہو، قادرِ مطلق نہ ہو، علیم اور حکیم نہ ہو، رحیم اور کریم نہ ہو، اور سب پر غالب نہ ہو |
1 | اس حکم کے اوّلین مُخاطَب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں۔ لیکن حضورؐ کے بعد ہر مومن اِس کا مخاطَب ہے۔ اُسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضورؐ کو دیا گیا تھا |
Surah 112 : Ayat 4
وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدُۢ
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے1
1 | اصل میں لفظ ِ کُفُو استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نظیر، مُشابِہ، مُماثِل، ہم رتبہ، مُساوِی۔ نکاح کے معاملہ میں کُفو کا لفظ ہماری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی معاشرتی حیثیت سے برابر کی جوڑھوں۔ پس اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے، نہ کبھی تھا، نہ کبھی ہو سکتا ہے، جو اللہ کے مانند، یا اُس کا ہم مرتبہ ہو، یا جو اپنی صفات، افعال اور اختیارات میں اُس سے کسی درجہ میں بھی مشابہت رکھتا ہو |