Ayats Found (9)
Surah 3 : Ayat 176
وَلَا يَحْزُنكَ ٱلَّذِينَ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْكُفْرِۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ ٱللَّهَ شَيْــًٔاۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِى ٱلْأَخِرَةِۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
(اے پیغمبرؐ) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے
Surah 6 : Ayat 33
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُۥ لَيَحْزُنُكَ ٱلَّذِى يَقُولُونَۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ
اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں1
1 | واقعہ یہ ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کام اعتماد رکھتے تھے۔ انہو ں نے آپ کو جھٹلایا اُس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اس دُوسرے دَور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھُوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انا لا نکذ بک ولکن نکذبُ ما جئت بہٖ ” ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں“۔ جنگ ِ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابُو جہل سے پُوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد ؐ تم سچا سمجھتے ہو یا جھُوٹا؟ اس نے جواب دیا کہ ”خدا کی قسم محمد ؐ ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھُوٹ نہیں بولا، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوّت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصّہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا؟“ اسی بناپر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلّی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بُردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو |
Surah 6 : Ayat 34
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَىٰ مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ حَتَّىٰٓ أَتَـٰهُمْ نَصْرُنَاۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِ ٱللَّهِۚ وَلَقَدْ جَآءَكَ مِن نَّبَإِىْ ٱلْمُرْسَلِينَ
تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے1، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں
1 | یعنی اللہ نے حق اور باطل کی کش مکش کے لیے جو قانون بنا دیا ہے اسے تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حق پرستوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک طویل مدّت تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں۔ اپنے صبر کا، اپنی راستبازی کا ، اپنے ایثار اور اپنی فداکاری کا ، اپنے ایمان کی پختگی اور اپنے توکّل علی اللہ کا امتحان دیں۔ مصائب اور مشکلات کے دَور سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پرورش کرریں جو صرف اِسی دشوار گزار گھاٹی میں پرورش پا سکتی ہیں۔ اور ابتداءً خالص اخلاقِ فاضلہ و سیرتِ صالحہ کے ہتھیاروں سے جاہلیّت پر فتح حاصل کر کے دکھائیں۔ اس طرح جب وہ اپنا اصلح ہونا ثابت کر دیں گے تب اللہ کی نُصرت ٹھیک اپنے وقت پر ان کی دستگیری کے لیے آپہنچے گی۔ وقت سے پہلے وہ کسی کے لائے نہیں آسکتی |
Surah 15 : Ayat 88
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٲجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ
تم اُس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ1 انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو
1 | یعنی اُن کے اِس حال پر نہ کُڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں، خود اُس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کے اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے ، اور جو شخص اِنہیں سلامتی کی راہ دکھا رہا ہے اُس کی سعیِ اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں |
Surah 15 : Ayat 95
إِنَّا كَفَيْنَـٰكَ ٱلْمُسْتَهْزِءِينَ
تمہاری طرف سے ہم اُن مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں
Surah 15 : Ayat 99
وَٱعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ ٱلْيَقِينُ
اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے1
1 | یعنی تبلیغ ِ حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے ۔ یہی چیز تمہیں تسلّی بھی دے گی ، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی ، اور تم کو اس قابل بھی بناد ے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اُس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجا م دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے |
Surah 27 : Ayat 70
وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُن فِى ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
اے نبیؐ، اِن کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اِن کی چالوں پر دل تنگ ہو1
1 | یعنی تم نےسمجھانےکاحق اداکردیا۔اب اگریہ نہیںمانتےاوراپنی حماقت پراصرارکرکےعزاب الٰہی کے مستحق بنناہی چاہتے ہیں تو تم خواہ مخواہ ان کےحال پرکڑھ کڑہ کراپنی جان کیون ہلکان کرو۔ پھر یہ حقیقت وصداقت سےلڑنے اورتمہاری اصلاحی کوششوں کونیچادکھانےکےلیے جوگھٹیا درجے کی چالیں چل رہےہیں اُن پرکبیدہ خاطرہونےکی تمہیں کیا ضرورت ہے۔ تمہاری پشت پرخداکی طاقت ہے۔ یہ تمہاری بات نہ مانیں گے تواپنا کچھ بگاڑیں گے۔ تمہاراکچھ نہیںبگاڑسکتے۔ |
Surah 31 : Ayat 23
وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُۥٓۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے1، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں یقیناً اللہ سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے
1 | خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، جوشخص تمہاری بات ماننے سے انکارکرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پراصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے، لیکن دراصل اس نے اپنے آپ کو پہنچائی ہے۔ اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، اپنا کچھ بگاڑا ہے۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ |
Surah 36 : Ayat 76
فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ
اچھا، جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں، اِن کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں1
1 | خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے۔اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے،وہ اپنے دلوں میں جانتے،اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں۔وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر،کاہن،ساحر،مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے،مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے،اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں۔اسی لیے اللہ تعالٰی اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو۔سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخرکار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے۔ |