Ayats Found (4)
Surah 9 : Ayat 40
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ ٱللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِىَ ٱثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِى ٱلْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَـٰحِبِهِۦ لَا تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَاۖ فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُۥ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلسُّفْلَىٰۗ وَكَلِمَةُ ٱللَّهِ هِىَ ٱلْعُلْيَاۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ 1"غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے" اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے
1 | یہ اُس موقع کا ذکر ہے جب کفارِ مکہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپؐ عین اس رات کو، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یہ منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا ، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر (جو شمال کی طرف تھی) جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اُس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ |
Surah 47 : Ayat 13
وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِىَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ ٱلَّتِىٓ أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَـٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ
اے نبیؐ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اُس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے اُنہیں ہم نے اِس طرح ہلاک کر دیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا1
1 | رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے رنج تھا۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوۓ تو شہر سے باہر نکل کر آپ نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا ’’سے مکہ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے،۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا۔ اسی پر ارشاد ہو ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہو گی |
Surah 60 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُواْ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلْحَقِّ يُخْرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْۙ أَن تُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَـٰدًا فِى سَبِيلِى وَٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِىۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَأَنَا۟ أَعْلَمُ بِمَآ أَخْفَيْتُمْ وَمَآ أَعْلَنتُمْۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم اُن کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا
Surah 59 : Ayat 8
لِلْفُقَرَآءِ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَـٰرِهِمْ وَأَمْوَٲلِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنًا وَيَنصُرُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلصَّـٰدِقُونَ
(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں1 یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں
1 | اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گۓ تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ اب حکم دیا گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے، اور آئندہ جو امول بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ان میں عام مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو حق بھی ہے، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں۔اس حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کریے گۓ۔ لیکن یہ خیال کر نا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے |