Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 109
وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّنۢ بَعْدِ إِيمَـٰنِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ ٱلْحَقُّۖ فَٱعْفُواْ وَٱصْفَحُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو1 یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
1 | یعنی ان کے عناد اور حسد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہو، اپنا توازن نہ کھو بیٹھو، ان سے بحثیں اور مناظرے کرنے اور جھگڑنے میں اپنے قیمتی وقت اور اپنے وقار کو ضائع نہ کرو، صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ کیا کرتا ہے ۔ فضولیات میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے خدا کے ذکر اور بھلائی کے کاموں میں انہیں صرف کرو کہ یہ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز ہے نہ کہ وہ |
Surah 3 : Ayat 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں
Surah 5 : Ayat 13
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَـٰقَهُمْ لَعَنَّـٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَـٰسِيَةًۖ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦۙ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِۦۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلاً مِّنْهُمْۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱصْفَحْۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
پھر یہ اُن کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اُس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں (پس جب یہ اِس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں
Surah 7 : Ayat 199
خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِٱلْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَـٰهِلِينَ
اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو
Surah 15 : Ayat 85
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلسَّاعَةَ لَأَتِيَةٌۖ فَٱصْفَحِ ٱلصَّفْحَ ٱلْجَمِيلَ
ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے1، اور فیصلے کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے، پس اے محمدؐ، تم (اِن لوگوں کی بیہودگیوں پر) شریفانہ درگزر سے کام لو
1 | یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلّی کے لیے فرمائی جارہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آرہا ہے، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے۔ اِس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲۶ – ۳۵ تا ۳۹) |
Surah 17 : Ayat 53
وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُواْ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ كَانَ لِلْإِنسَـٰنِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اے محمدؐ، میرے بندوں1 سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو 2دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے3
3 | یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تاکہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔ |
2 | یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف ِحق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔ |
Surah 24 : Ayat 22
وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُواْ ٱلْفَضْلِ مِنكُمْ وَٱلسَّعَةِ أَن يُؤْتُوٓاْ أُوْلِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ وَلْيَعْفُواْ وَلْيَصْفَحُوٓاْۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَكُمْۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے1
1 | حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابو بکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے ، کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابو بکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انانحب ان تغفرلنا یا ربنا، ’’واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرماۓ ‘‘۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابو بکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے ، اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فوأی غیر ھا خیر ا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہٗ۔ (جو شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے )۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم فرما چکا ہے (البقرہ، آیت 225 المائدہ، آیت 89) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکرؓ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نا مناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے ، چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہہ کر دیتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فرّی غیرھا خیر منھافلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہٖ (جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے ، اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز۔ ایک چیز کا کفارہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد چہارم، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 46) |
Surah 45 : Ayat 14
قُل لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ يَغْفِرُواْ لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ ٱللَّهِ لِيَجْزِىَ قَوْمَۢا بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
اے نبیؐ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے1، اُن کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے2
2 | مفسرین نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں، اور آیت کے لفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر در گسر سے کان لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں نا کا اجر عطا فرماۓ۔ دوسرا مطلب یہ ے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ لیکن آیت کے لفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ’’ در گزر‘‘ کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے، بلکہ اس موقع پر صبر، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں در گزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کار روائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پاۓ۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آۓ اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں۔جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو، اس سے پرہیز نہ کیا جاۓ۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آۓ وہاں چپ سادھ لی جاۓ اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جاۓ۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا۔ در گزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرماۓ گا |
1 | اصل لفاظ ہیں اَ لَّذِیْنَ لَا یَرْ جُوْنَ اَیَّا مَ اللہِ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ‘‘۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ وہ یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آۓ ہوں۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جاۓ۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے،‘‘ یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آۓ گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آۓ گی، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے |