Ayats Found (1)
Surah 27 : Ayat 60
أَمَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنۢبِتُواْ شَجَرَهَآۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟1 (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں
1 | مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کایہ جواب نہ دےسکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اورکے ہیں، یا اللہ کےساتھ کوئی اوربھی ان میں شریک ہے۔ قرآن مجید دوسرے مقامات پرکفارمکہ اورمشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے:والین سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم، ’’ اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے تو وہ ضرورکہیں گے اُس زبردست، علم والے نے ہی ان کو پیدا کیا ہے‘‘ (الزخرف آیت ۹) ولئن سالتھم من خلقھم لیقلن اللہ، ’’اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے‘‘(الزخرف آیت۸۷)ولئن سالتھم من نزل من السماء ماء فاحیابھ الارض بعد موتھا لیقولن اللہ،’’اوراگر ان سے پو چھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اورمردہ پڑی زمین کو جلااُٹھایا تووہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے‘‘(العنکبوت۔آیت ۶۳)۔ قل من یرزقکم من اسماء والارض۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ومن یدبرالامر فسیقولون اللہ، ’’ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اورزمین مین رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اوربینائی کی قوتیں کس کے میں ہیں؟ کون جاندار کو بےجان میں سے اوربےجان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ــ (یونس۔آیت ۳۱)۔ عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھرکے مشرکین بلعموم یہی مانتےتھے اورآج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کاخالق اورنظام کائنات کا مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پربرائےبحث نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی قوم کے ہزار ہا آدمی اس کو جھٹلادیتے اورصاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ اس سوال اوراس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اوراس کے زریعہ سے ہرطرح کی نباتات اُگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجئے، زمین میں اُس مواد کا ٹھیک سطح پریا سطح سے متصل موجود ہونا جوبےشمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کےلیے درکار ہے، اورپانی کے اند ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اورنباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں، اوراس پانی کا پےدرپےسمندروں سے اُٹھایا اورزمین کے مختلف حصوں میں وقتافوقت ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین ہوا، پانی اوردرجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کےدرمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشوونما نصیب ہو اور وہ ہرطرح کی حیوانی زندگی کےلیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اوردانشمندانہ تدبیراورغالب قدرت واراداہ کے بغیر خود بخود اتفاقاََ ہوسکتا ہے؟ اورکیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاقی حادثہ مسلسل ہزار برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلاجائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی، جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو، اسے ایک امراتفاقی کہہ سکتا ہے۔ کسی راستی پسند عاقل انسان کےلیے ایسا لغو دعویٰ کرنا اورماننا ممکن نہیں ہے۔ |