Ayats Found (2)
Surah 23 : Ayat 18
وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءَۢ بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّـٰهُ فِى ٱلْأَرْضِۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابِۭ بِهِۦ لَقَـٰدِرُونَ
اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا1 ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں2
2 | یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے ، بے شمار صورتیں ممکن ہیں ، اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ آیت سورہ مُلک کی اُس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : قُلْ اَرَاَیْتُم اِنْ اَصْبَحَ مَآ ؤُ کَمْ غَوْراً فَمَنْ یَّاتِیْکُمْ بِمَآ ءِ مَّعِیْنٍ ہ ‘‘ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا |
1 | اس سے مراد اگر چہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے ، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آغاز آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اس کرے کی ضروریات کے لیے اس کے علم میں کافی تھا۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصوں میں ٹھیر گیا جس سے سمندر اور بحیرے وجود میں آئے اور آپ زیر زمین (Sub-soil water) پیدا ہو ا اب یہ اسی پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ، اسی کا بارشیں ، برف پوش پہاڑ ، دریا، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں ، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گۓ ، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا ؟اور کو ن ہے جواب انہی گیسوں کو اُس خاص تناسب کے ساتھ ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے حالانکہ دونوں گیسیں اب دنیا میں موجود ہیں؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے ؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟ اور کیا پانی اور ہوا اور گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی جواب رکھتے ہیں |
Surah 23 : Ayat 19
فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِۦ جَنَّـٰتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَـٰبٍ لَّكُمْ فِيهَا فَوَٲكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں1 اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو2
2 | یعنی ان باغوں کی پیداوار سے ، جو پھل ، غلے ، لکڑی اور دوسری مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے ، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَا کُلُوْنَ میں منھا کی ضمیر جنّات کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ یہ بحیثیت مجموعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے ، اسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں فلان یا کل من حرفتہٖ |
1 | یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل |