Ayats Found (44)
Surah 1 : Ayat 1
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے1
1 | اسلام جو تہزیب انسان کو سکھاتا ہےاس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتدا خدا کے نام سے کرے۔ اس قاعدے کی پابندی اگر شعور اور خلوص کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماََ تین فائدے حاصل ہوں گے۔ایک یہ کہ آدمی بہت سےبرے کاموں سے بچ جائے گا کیو نکہ خدا کا نام لینے کی عادت اُسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سو چنے پر مجبور کر دے گی کی کیا واقعی میں اس کام پر خدا کا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اورنیک کاموں کی ابتدا کرتے ہوئے خدا کا نام سے آدمی کی ذہنیت با لکل ٹھیک سمت اختیار کر لے گی اور وہ ہمشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور تو فیق اس کے شامل حال ہو گی،اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اُس کو بچایا جائے گا۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ |
Surah 40 : Ayat 65
هُوَ ٱلْحَىُّ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَٱدْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَۗ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
وہی زندہ ہے 1اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اُسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے2 ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے3
3 | یعنی کوئی دوسرا نہیں ہے جس کی حمد و ثنا کے گیت گاۓ جائیں اور جس کے شکرانے بجا لاۓ جائیں |
2 | تشریح کے لی ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزُّمُر، حاشیہ 3۔4 |
1 | یعنی اصلی اور حقیقی زندگی اسی کی ہے۔ اپنے بل پر آپ زندہ وہی ہے۔ ازلی و ابدی حیات اس کے سوا کسی کی بھی نہیں ہے۔ باقی سب کی حیات عطائی ہے، عارضی ہے، موت آشنا اور فنا در آغوش ہے |
Surah 6 : Ayat 45
فَقُطِعَ دَابِرُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْۚ وَٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)
Surah 37 : Ayat 172
إِنَّهُمْ لَهُمُ ٱلْمَنصُورُونَ
کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی
Surah 10 : Ayat 10
دَعْوَٮٰهُمْ فِيهَا سُبْحَـٰنَكَ ٱللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌۚ وَءَاخِرُ دَعْوَٮٰهُمْ أَنِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ “پاک ہے تو اے خدا، " اُن کی دعا یہ ہوگی کہ “سلامتی ہو " اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ “ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے "
Surah 39 : Ayat 75
وَتَرَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ حَآفِّينَ مِنْ حَوْلِ ٱلْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْۖ وَقُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْحَقِّ وَقِيلَ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے، اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے1
1 | یعنی پوری کائنات اللہ کی حمد پکار اُٹھے گی۔ |
Surah 6 : Ayat 1
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ ٱلظُّلُمَـٰتِ وَٱلنُّورَۖ ثُمَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں1
1 | یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اَور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دُوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیاز یں چڑھاتے ہو، دُعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحضہ ہو سُورۂ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۶۳) روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغۂ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدمِ نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں |
Surah 7 : Ayat 43
وَنَزَعْنَا مَا فِى صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ ٱلْأَنْهَـٰرُۖ وَقَالُواْ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى هَدَٮٰنَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلَآ أَنْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُۖ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِٱلْحَقِّۖ وَنُودُوٓاْ أَن تِلْكُمُ ٱلْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے1 اُن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی، اور وہ کہیں گے کہ 2"تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے" اُس وقت ندا آئے گی کہ "یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے"
2 | یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد وثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہےورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کہ صلہ میں پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔ درحقیقت یہی معاملہ دنیامیں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتےہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنےہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشے ہی جائیں گے۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتےہیں، اپنے عمل کےبجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچے دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوںمیں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلمواان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ،اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنء رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے |
1 | یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور جلا جو مجھ سے لڑاتھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے |
Surah 16 : Ayat 39
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَـٰذِبِينَ
اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور منکرین حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے
Surah 6 : Ayat 75
وَكَذَٲلِكَ نُرِىٓ إِبْرَٲهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ ٱلْمُوقِنِينَ
ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے1 اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے2
2 | اس مقام کو اور قرآن کے اُن دُوسرے مقامات کو جہاں حضرت ابراہیم ؑ سے اُن کی قوم کی نزاع کا ذکر آیا ہے، اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کے مذہبی و تمدّنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہو گیا ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے تھے ، بلکہ دَور ِابراہیمی میں اُس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی اس پر بھی بہت روشنی پڑی ہے۔ سر لیو نارڈو وُلی (Sir Leonard Woolley)نے اپنی کتاب ( London, 1935”Abraham,“) میں اس تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم ؑ کے ظہُور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُرکی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دُوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے ۔ جِس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومت ِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے ۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطۂ نظر خالص مادّہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات تھا۔ سُود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دُوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دُعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی: (۱) عَمیلو - یہ اُونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پُجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔ (۲) مِشکینو - یہ تجارتی، اہلِ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔ (۳) اَردو - یعنی غلام۔ ان میں سے پہلے طبقہ ، یعنی عَمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دُوسروں سے مختلف تھے، اور ان کی جان و مال کی قیمت دُوسروں سے بڑھ کر تھی۔ یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا جس میں حضرت ابراہیم ؑ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا۔(دیکھو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۹۰)۔ اُر کے کتبات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا جو ربُّ البلد، مہادیو، یا رئیس الآ لہہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا احترام دُوسرے معبُودوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُرکا ربّ البلد ات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے”نَنّار“(چاند دیوتا) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام”قمرینہ“ بھی لکھا ہے۔ دُوسرا بڑا شہر لَرسہ تھا جو بعد میں اُر کے بجائے مر کزِ سلطنت ہوا۔ اُس کا ربّ البلد”شماش“ (سُورج دیوتا) تھا۔ ان بڑے خداؤں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتاؤں اور دیویوں کی شبیہیں بُتوں کی شکل میں بنالی گئی تھیں اور تمام مراسمِ عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔ ان میں سے اور کم تر زمینہہ سمجھا جاتا تھ”ننار“ کا بُت اُر میں سب سے اُونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا۔ اسی کے قریب”ننار“ کی بیوی”نن گل“ کا مَعبد تھا۔ ننار کے مَعبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجا رن جا کر اس کی دُلہن بنتی تھی۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اور ان کی حیثیت دیوداسیوں(Religious Prostitutes) کی سی تھی۔ وہ عورت بڑی معزّز خیال کی جاتی تھی جو ”خدا “ کے نام پر اپنی بکارت قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ”راہِ خدا“ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ ٔ نجات خیال کیا جاتا تھا۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پوجاری حضرات ہی ہوتے تھے۔ ننار محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقت تھیں۔ اس جائداد کی آمدنی کے علاوہ وہ کسان، زمیندار ، تجّارت ہر قسم کے غلّے ، دُودھ ، سونا ، کپڑا اور دُوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے جنہیں وصُول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پوجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی۔ پوجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے”خدا“ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبُودوں میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ اُر کا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں حکمران تھا، اس کے بانیٔ اوّل کا نام اُرنَمُوّ تھا جس نے ۲۳۰۰ برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے حُدُودِ مملکت مشرق میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لُبنان تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُسی سے اس خاندان کو ”نَمُوّ“ کا نام ملا جو عربی میں جا کر نمرود ہو گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی۔ پہلے عیلامیوں نے اُر کو تباہ کیا اور نمرُود کےننار کے بُت سمیت پکڑ لے گئے۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی جس کے ماتحت اُر کا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابِل نے زور پکڑا اور لرسہ اور اُر دونوں اس کے زیرِ حکم ہو گئے۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ اُر کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کر دیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کر سکا۔ تعیّن کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہا ں تک قبول کیا۔ لیکن سن ۱۹۱۰ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورائی (بائیبل کے اَمُرافیل) نے جو قوانین مرتب کیے تھے وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی تدوین میں مشکوٰۃِ نبوّت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ سن ۱۹۰۲ بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثارِ قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ C.H.W. John نے سن ۱۹۰۳ بعد مسیح میں( The Oldest Code of Law ) کے نام سے شائع کیا۔ اس ضابطۂ قوانین کے بہت سے اُصُول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ اب تک کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بُت پرستانہ عبادات کا مجمُوعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پُوری معاشی ، تمدّنی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم ؑ توحید کی جو دعوت لے کر اُٹھے تھے اس کا اثر صِرف بُتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ شاہی خاندان کی معبُودیت اور حاکمیت، پوجاریوں اور اُونچے طبقوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی حیثیت ، اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی۔ اُن کی دعوت کی قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اُوپر تک ساری سوسائیٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے ازسرِ نو توحیدِ الٰہ کی بُنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اِسی لیے ابراہیم علیہ السّلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص، پوجاری اور نمرود سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے |
1 | یعنی جس طرح تم لوگوں کے سامنے آثارِ کائنات نمایاں ہیں اور اللہ کی نشانیاں تمھیں دکھائی جا رہی ہیں، اُسی طرح ابراہیم ؑ کے سامنے بھی یہی آثار تھے اور یہی نشانیاں تھیں۔ مگر تم لوگ انھیں دیکھنے پر بھی اندھوں کی طرح کچھ نہیں دیکھتے اور ابراہیم ؑ نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا۔ یہی سُورج اور چاند اور تارے جو تمہارے سامنے طلوع و غروب ہوتے ہیں اور روزانہ تم کو جیسا گمراہ طلوع ہوتے وقت پاتے ہیں ویسا ہی غروب ہوتے وقت چھوڑ جاتے ہیں، انہی کو اُس آنکھوں والے انسان نے بھی دیکھا تھا اور انہی نشانات سے وہ حقیقت تک پہنچ گیا |