Ayats Found (10)
Surah 4 : Ayat 105
إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَٮٰكَ ٱللَّهُۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا
اے نبیؐ!1 ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو
1 | اس رکوع اور اس کے بعد والے رکوع میں ایک اہم معاملہ سے بحث کی گئی ہے جو اُسی زمانہ میں پیش آیا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طَعْمہ یا بشیر بن اُبَیرِق تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرا لی۔ اور جب اس کا تجسس شروع ہوا تو مال مسروقہ ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا۔ زرہ کے مالک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کی اور طعمہ پر اپنا شبہہ ظاہر کیا۔ مگر طعمہ اور اس کے بھائی بندوں اور بنی ظفر کے بہت سے لوگوں نے آپس میں اتفاق کر کے اُس یہودی پر الزام تھوپ دیا۔ یہودی سے پوچھا گیا کہ تو اس نے اپنی براءت ظاہر کی۔ لیکن یہ لگوطعمہ کی حمایت میں زور شور سے وکالت کرتے رہے اور کہا کہ یہ یہودی خبیث جو حق کا انکار اور اللہ کے رسول سے کفر کرنے والا ہے، اِس کی بات کا کیا اعتبار، بات ہماری تسلیم کی جانی چاہیے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدمہ کی ظاہری روداد سے متاثر ہو کر اس یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے اور مستغیث کو بھی بنی اُبَیرق پر الزام عائد کرنے پر تنبیہ فرماتے۔ اتنے میں وحی آئی اور معاملہ کی ساری حقیقت کھول دی گئی۔ اگرچہ ایک قاضی کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روداد کے مطابق فیصلہ کر دینا بجائے خود آپ کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کر لیے جاتے ہیں ۔ لیکن اُس وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم رودادِ مقدمہ کے مطابق یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف اور پوری اسلامی جماعت اور خود دعوتِ اسلامی کے خلاف ایک زبر دست اخلاقی حربہ مل جاتا۔ وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے، یہاں تو وہی جتھہ بندی اور عصبیت کام کر رہی ہے جس کے خلاف تبلیغ کی جاتی ہے۔ اسی خطرے سے بچانے کے لیے اللہ تعالٰی نے خاص طور پر اس مقدمہ میں مداخلت فرمائی۔ اِن رکوعوں میں ایک طرف اُن مسلمانوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت میں مجرموں کی حمایت کی تھی۔ دُوسری طرف عام مسلمانوں کو سبق دیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی تعصب کا دخل نہ ہونا چاہیے۔ یہ ہرگز دیانت نہیں ہے کہ اپنے گروہ کا آدمی اگر برسرِ طابل ہو تو اس کی بے جا حمایت کی جائے اور دُوسرے گروہ کا آدمی اگر برسرِ حق ہوتو اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے |
Surah 4 : Ayat 109
هَـٰٓأَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ جَـٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا فَمَن يُجَـٰدِلُ ٱللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلاً
ہاں! تم لوگوں نے اِن مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا، مگر قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑا کرے گا؟آخر وہاں کون اِن کا وکیل ہوگا؟
Surah 8 : Ayat 67
مَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكُونَ لَهُۥٓ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِى ٱلْأَرْضِۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ ٱلدُّنْيَا وَٱللَّهُ يُرِيدُ ٱلْأَخِرَةَۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے
Surah 8 : Ayat 68
لَّوْلَا كِتَـٰبٌ مِّنَ ٱللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَآ أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی
Surah 9 : Ayat 43
عَفَا ٱللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ ٱلْكَـٰذِبِينَ
اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے1
1 | بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی تھی ، اور حضور ؐ نے بھی اپنے طبعی حِلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرمادی تھی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے ۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوٰئے ایمان بے نقاب ہو جاتا |
Surah 9 : Ayat 113
مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوٓاْ أُوْلِى قُرْبَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ
نبیؐ کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں1
1 | ”کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازمًا یہ معنی رکھتی ہے کہ اوّل تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اُس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کُھلا ہُوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولًا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے ، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے ، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرو ر بخش دے خوا ہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں ، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اُس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو ، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ”مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو“ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ” تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو“۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دُنیوی تعلقات میں صلۂ رحمی ، مُواساۃ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن ، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مد د کی جائے گی۔ حاجت مند آدمی کو بہرصورت سہارا دیا جائے گا ۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے گی ۔ یتیم کے سر پر یقینًا شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا۔ ایسے معاملات میں ہر گز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم |
Surah 33 : Ayat 37
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِىٓ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَٱتَّقِ ٱللَّهَ وَتُخْفِى فِى نَفْسِكَ مَا ٱللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى ٱلنَّاسَ وَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَـٰهُۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَـٰكَهَا لِكَىْ لَا يَكُونَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِىٓ أَزْوَٲجِ أَدْعِيَآئِهِمْ إِذَا قَضَوْاْ مِنْهُنَّ وَطَرًاۚ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ مَفْعُولاً
اے نبیؐ1، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا2 کہ "اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر3" اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو4 پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا5 تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا6 تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں7 اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا
7 | یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں، ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ، اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالٰی نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا۔ |
6 | یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔ |
5 | یعنی جب زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدّت پور ی ہو گئی۔’’حاجت پوری کر چکا‘‘ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زیدؓ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اور یہ صورتِ حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی، کیوں کہ عدّت کے دَوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے، اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس لیے مطلّقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اُسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدّت گزر جائے۔ |
4 | بعض لوگوں نے اس فقرے کا اُلٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت زینبؓ سے نکاح کے خواہشمند تھے، اور آپؐ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زیدؓ ان کو طلاق دے دیں، مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپؐ نے معاذاللہ اوپری دِل سے ان کو منع کیا، اس پر اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ ’’تم دِل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔‘‘ حالاں کہ اصل بات اس کے برعکس ہے۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱۔۲۔۳۔اور۔۷ کے ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زیدؓ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زیدؓ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا۔ لیکن چوں کہ حضورؐ جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے.........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپؐ کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔اِس لیے آپؐ اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اسی بنا پر جب حضرت زیدؓ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپؐ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اِس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں، اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اُچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا۔ مگر اللہ تعالٰی اپنے نبیؐ کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اُس کے لحاظ سے حضورؐ کی یہ بات اُس کو فروتر نظر آئی کہ آپؐ نے قصداً زیدؓ کو طلاق سے روکا تاکہ آپؐ اُس کام سے بچ جائیں جس میں آپؐ کو بدنامی کا اندیشہ تھا، حالاں کہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپؐ سے لینا چاہتا تھا۔’’تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘ کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں، مگر جب زیدؓ نے آکر اُن کی شکایت آپؐسے کی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینبؓ سے کرنے والا ہوں، تم زیدؓ سے یہ بات کہتے وقت اُس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا‘‘ (ابن جریر۔ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم) علامۂ آلوسی نے بھی تفسیر رُوح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زیدؓ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینبؓ تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی‘‘۔ |
3 | یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت زید ؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ حضرت زینبؓ نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح جانا قبول کر لیا تھا، لیکن وہ اپنے دِل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں،اُن کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں، اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زیدؓ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدّت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ |
2 | یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے |
1 | یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم برپا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ |
Surah 33 : Ayat 39
ٱلَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَـٰلَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُۥ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا
(یہ اللہ کی سنت ہے اُن لوگوں کے لیے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کسی اور کی باز پُرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں |
Surah 80 : Ayat 1
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ
ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی
Surah 80 : Ayat 10
فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ
اس سے تم بے رخی برتتے ہو1
1 | یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ دین کے معاملہ میں اس موقع پر نظر انداز کر دیا تھا، اوراسی کو سمجھانے کے لیےاللہ تعالی نے پہلے ابن ام مکتومؓ کے ساتھ آپ کے طرزِ عمل پر گرفت فرمائی، پھر آپ کو بتایا کہ داعی حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے۔ ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالب حق ہے، اس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ باطل کی پیروی کر کے خدا کےغضب میں مبتلا نہ ہو جائے، اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویہ صریحا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ اسے راہ راست بتائی جائے۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے بہت مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سدھرنے کے لیے تیار ہے اورکون اس متاع گراں مایہ کا سرے سے قدر دان ہی نہیں ہے۔ پہلی قسم کا آدمی، خواہ اندھا ہو، لنگڑا ہو، لولا ہو، فقیر بے نوا ہو، بظاہر دین کے طرف اسے توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ اس دعوت کا اصل مقصد بندگان خدا کی اصلاح ہے، اور اس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کر لے گا۔ رہا دوسری قسم کا آدمی، تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی با اثرہو، اس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ وہ سدھرنا نہیں چاہتا، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے وہ اگر نہ سندھرنا چاہیے تو نہ سدھرے، نقصان اس کا اپنا ہو گا، داعی حق پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں |