Ayats Found (23)
Surah 6 : Ayat 35
وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ ٱسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِىَ نَفَقًا فِى ٱلْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِى ٱلسَّمَآءِ فَتَأْتِيَهُم بِـَٔـايَةٍۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى ٱلْهُدَىٰۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْجَـٰهِلِينَ
تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو1 اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو2
2 | یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رَو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تویہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اُس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوّق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجمُوعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اُصُولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دین ِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلا دے اور تمدّنِ فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیّتِ صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اُس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمّہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرّف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مُہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے |
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدّتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے اِن لوگوں کا کفر ٹُوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کر لیں۔ آپ کی اِسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیّتِ صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمُود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمُود کو توڑنے کے لیے کسی محسُوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھُس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا ۔ مگر ہم سے اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے |
Surah 6 : Ayat 36
۞ إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ ٱلَّذِينَ يَسْمَعُونَۘ وَٱلْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ ٱللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ
دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں، رہے مُردے1، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے
1 | سُننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں ، جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو معطّل نہیں کر دیا ہے، اور جنھوں نے اپنے دل کے دروازوں پر تعصّب اور جمُود کے قفل نہیں چڑھا دیے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مُردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر بنے اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہیں اور اس لکیر سے ہٹ کر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، خواہ وہ صریح حق ہی کیوں نہ ہو |
Surah 6 : Ayat 50
قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ إِنِّى مَلَكٌۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
ا ے محمدؐ! ان سے کہو، 1"میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے" پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے2؟
2 | مطلب یہ ہے کہ میں جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ان کا میں نے مشاہدہ کیا ہے، وہ براہِ راست میرے تجربہ میں آئی ہیں، مجھے وحی کے ذریعہ سے ان کا ٹھیک ٹھیک علم دیا گیا ہے، ان کے بارے میں میری شہادت آنکھوں دیکھی شہادت ہے۔ بخلاف اس کے تم ان حقیقتوں کی طرف سے اندھے ہو، تم ان کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہو وہ یا تو قیاس و گمان پر مبنی ہیں یا محض اندھی تقلید پر۔ لہٰذا میرے اور تمہارے درمیان بینا اور نابینا کا سا فرق ہے اور اسی اعتبار سے مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے ، نہ اس اعتبار سے کہ میرے پاس کوئی خدائی کے خزانے ہیں، یا میں عالم ُالغیب ہوں، یا انسانی کمزوریوں سے مبرّا ہوں |
1 | نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصوّر رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہواسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے، اُس سے عجائب و غرائب صادر ہونے چاہییں ، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے اُبلنے لگیں ، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں، وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے ، مریض بچ جائے گا، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھُوک اور پیاس لگے، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچّے رکھتا ہو، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔ اسی قسم کے تصوّرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین کی ذہنیّت پر مسلّط تھے۔ وہ جب آپ ؐ سے پیغمبری کا دعوٰی سُنتے تھے تو آپ ؐ کی صداقت جانچنے کے لیے آپ ؐ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے ، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے، بیوی بچّے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے |
Surah 6 : Ayat 57
قُلْ إِنِّى عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّى وَكَذَّبْتُم بِهِۦۚ مَا عِندِى مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِۦٓۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِۖ يَقُصُّ ٱلْحَقَّۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلْفَـٰصِلِينَ
کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو1، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
1 | اشارہ ہے عذابِ الہٰی کی طرف۔ مخالفین کہتے تھے کہ اگر تم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہو اور ہم کھُلم کھُلا تمہیں جھُٹلا رہے ہیں تو کیوں نہیں خدا کا عذاب ہم پر ٹُوٹ پڑتا؟ تمہارے مامور من اللہ ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ اِدھر کوئی تمہاری تکذیب یا توہین کرتا اور اُدھر فوراً زمین دھنستی اور وہ اسمیں سما جاتا ، یا بجلی گرتی اور وہ بھسم ہو جاتا۔ یہ کیا ہے کہ خدا کا فرستادہ اور اس پر ایمان لانے والے تو مصیبتوں پر مصیبتیں اور ذلّتوں پر ذلّتیں سہ رہے ہیں اور ان کو گالیاں دینے اور پتھر مارنے والے چین کیے جاتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 58
قُل لَّوْ أَنَّ عِندِى مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِۦ لَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۗ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِٱلظَّـٰلِمِينَ
کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے
Surah 7 : Ayat 188
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُۚ إِنْ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے محمدؐ، ان سے کہو 1"میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں"
1 | مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پو چھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی |
Surah 10 : Ayat 49
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌۚ إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَــْٔخِرُونَ سَاعَةًۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
کہو “میرے اختیار میں خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے1 ہر امّت کے لیے مُہلت کی ایک مدّت ہے، جب یہ مدّت پُوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی2"
2 | مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی جلد باز نہیں ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اُسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اُس پر فورًا عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ پھر جب وہ مہلت، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا، تب اللہ تعالٰی اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے۔ |
1 | یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہو گی۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اُس کو تمہارے سامنے لائے |
Surah 21 : Ayat 109
فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُلْ ءَاذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَآءٍۖ وَإِنْ أَدْرِىٓ أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ
اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ 1"میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دُور
1 | یعنی خد اکی پکڑ جو دعوت رسالت کو رد کر دینے کی صورت میں آئے گی ، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے |
Surah 21 : Ayat 111
وَإِنْ أَدْرِى لَعَلَّهُۥ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے1 اور تمہیں ایک وقت خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے"
1 | یعنی تم اس تاخیر کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو۔ تاخیر تو اس لیے کی جا رہی ہے کہ تمہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دی جاۓ اور جلد بازی کر کے فوراً ہی نہ پکڑ لیا جائے ۔ مگر تم اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہو کہ نبی کی سب باتیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر یہ سچا نبی ہوتا اور خدا ہی کی طرف سے آیا ہوتا تو اس کو جھٹلا دینے کے بعد ہم کبھی کے دھر لیے گئے ہوتے |
Surah 27 : Ayat 80
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ
تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے1، نہ اُن بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں2
2 | یعنی جوتمہاری بات کےلیے صرف اپنے کان بند کرلینے پرہی اکتفا نہیں کرے بلکہ اُس جگہ سےکتراکر نکل جاتے ہیں جہاں انہیں اندیشہ ہوتا ہےکہ کہیںتمہاری بات ان کےکان میںنہ پڑجائے۔ |
1 | یعنی ایسے لوگوں کوجن کےضمیرمرچکے ہیں اورجن میںضد اور ہٹ دھرمی اوررسمی پرستی نے حق وباطل کافرق سمجھنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں چھوڑی ہے۔ |