Ayats Found (10)
Surah 35 : Ayat 12
وَمَا يَسْتَوِى ٱلْبَحْرَانِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهُۥ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌۖ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَاۖ وَتَرَى ٱلْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں1 ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار، اور دوسرا سخت کھاری کہ حلق چھیل دے مگر دونوں سے تم تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو2، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو3، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اُس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکر گزار بنو
3 | یعنی موتی، مونگے، اور بعض دریاؤں سے ہیرے اور سونا |
2 | یعنی آبی جانوروں کا گوشت |
1 | یعنی ایک وہ ذخیرہ جو سمندروں میں ہے۔ دوسرا وہ ذخیرہ جو دریاؤں، چشموں اور جھیلوں میں ہے |
Surah 36 : Ayat 41
وَءَايَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ
اِن کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے اِن کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا1
1 | بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوحؑ کی کشتی۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوحؑ کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر در حقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ کیوں کہ طوفانِ نوحؑ میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی |
Surah 36 : Ayat 42
وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِۦ مَا يَرْكَبُونَ
اور پھر اِن کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں1
1 | اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوحؑ والی کشتی تھی۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے حضرت نوحؑ کو دی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل نے بحری سفروں کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ |
Surah 42 : Ayat 32
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِ ٱلْجَوَارِ فِى ٱلْبَحْرِ كَٱلْأَعْلَـٰمِ
اُس کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں
Surah 42 : Ayat 33
إِن يَشَأْ يُسْكِنِ ٱلرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اللہ جب چاہے ہوا کو ساکن کر دے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اِس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو کمال درجہ صبر و شکر کرنے والا ہو1
1 | صبر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اچھے اور برے تمام حالات میں بندگی کے رویے پر ثابت قدم رہے۔ جس کا حال یہ نہ ہو کہ اچھا وقت آۓ تو اپنی ہستی کو بھول کر خدا سے باغی اور بندوں کے حق میں ظالم بن جاۓ، اور برا وقت آ جاۓ تو دل چھوڑ بیٹھے اور ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کرنے پر اتر آۓ۔ ’’ شکر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جسے تقدیر الہٰی خواہ کتنا ہی اونچا اٹھا لے جاۓ ، وہ اسے اپنا کمال نہیں بلکہ اللہ کا احسان ہی سمجھتا رہے ، اور وہ خواہ کتا ہی نیچے گرا دیا جاۓ، اس کی نگاہ اپنی محرومیوں کے بجاۓ ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو برے سے برے حالات میں بھی آدمی کو حاصل رہتی ہیں ، اور خوشحالی و بد حالی، دونوں حالتوں میں اس کی زبان اور اس کے دل سے اپنے رب کا شکر ہی ادا ہوتا رہے |
Surah 42 : Ayat 34
أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُواْ وَيَعْفُ عَن كَثِيرٍ
یا (اُن پر سوار ہونے والوں کے) بہت سے گناہوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے چند ہی کرتوتوں کی پاداش میں انہیں ڈبو دے
Surah 43 : Ayat 12
وَٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَٲجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْفُلْكِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ مَا تَرْكَبُونَ
وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے1، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم اُن کی پشت پر چڑھو
1 | جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد ، اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا ۔جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے ، ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے ۔ یہ اور دوسرے ان گنت جوڑ ے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ، ان کی ساخت ، اور انکی باہمی مناسبتوں اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنا یا ہوا ہے ، اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے ۔ صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے ، یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے |
Surah 43 : Ayat 13
لِتَسْتَوُۥاْ عَلَىٰ ظُهُورِهِۦ ثُمَّ تَذْكُرُواْ نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا ٱسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُواْ سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُۥ مُقْرِنِينَ
اور جب اُن پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ 1"پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے اِن چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے
1 | یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جاۓ اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے ، اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدر جہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا ، دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے ۔ ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا سل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جاۓ گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لی ان چیزوں کو مسخر کیا۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مدد گار خداؤں کی اسے حاجت پیش آۓ ۔ پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کی ساتھ کسی اور کو شریک کروں۔ اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپؐ کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، پھر یہ آیت پڑھتے ، اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ : اللھم انی اسأ لُکَ فی سفری ھٰذا لابرَّ و التقویٰ ، ومن العمل ماثرضیٰ ، اللھم ھون انالسفر، واطْو،لَنا البعید ، اللھم انت الصاحب فی السفر ، الخلیفۃُ فی الاھل، اللھم اَصْحِبْا فی سفر نا واخْلُفْنَا فی اھلنا (مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد نسائی ، دارمی، ترمذی) ۔ ’’ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے ، خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے ، خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما۔‘‘ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا ، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ ، سبحان الذی سخر لنا ھٰذا .......... ، پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا ، پھر فرمایا سبحانک، لا اِلٰہ الا انت ، قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا ، بندہ جب ربِّ اغْفِرْ لِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ) ۔ ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا پڑھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ، شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے ، اس کے بعد یہ آیت پڑھو(ابن جریر ۔ احکام القرآن للجصّاص) |
Surah 45 : Ayat 12
۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ ٱلْبَحْرَ لِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اُس میں چلیں1 اور تم اس کا فضل تلاش کرو2 اور شکر گزار ہو
2 | یعنی سمندر میں تجارت، ماہی گیری، غواصی، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال کرنے کی کوشش کرو |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد دوم، ص، 63، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ 55، المومن، حاشیہ۔11، الشوریٰ، حاشیہ 54 |
Surah 55 : Ayat 24
وَلَهُ ٱلْجَوَارِ ٱلْمُنشَـَٔـاتُ فِى ٱلْبَحْرِ كَٱلْأَعْلَـٰمِ
اور یہ جہاز اُسی کے ہیں1 جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں
1 | یعنی اس کی قدرت سے بنے ہیں۔ اسی نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ سمندروں کو پار کرنے کے لیے جہاز بناۓ۔ اسی نے زمین پر وہ سامان پیدا کیا جس سے جہاز بن سکتے ہیں۔اور اسی نے پانی کو ان قواعد کا پابند گیا جن کی بدولت غضبناک سمندروں کے سینے پر پہاڑ جیسے جہازوں کا چلنا ممکن ہوا |