Ayats Found (9)
Surah 6 : Ayat 91
وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ إِذْ قَالُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَىْءٍۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِى جَآءَ بِهِۦ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِۖ تَجْعَلُونَهُۥ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًاۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوٓاْ أَنتُمْ وَلَآ ءَابَآؤُكُمْۖ قُلِ ٱللَّهُۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِى خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے1 ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسیٰؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟2 بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر اُنہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو
2 | یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جارہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السّلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیوں کہ وہ خود اس کے قائل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰ ؑ پر توراۃ نازل ہوئی تھی، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کردیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ نیز اس سے کم ازکم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے |
1 | انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے |
Surah 12 : Ayat 104
وَمَا تَسْــَٔلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَـٰلَمِينَ
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے1
1 | اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لیطف ترتنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر بنیﷺ سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو، غور کرو، تمہوری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جامے۔ اگر پغمیبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیع کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا یہ موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے، تمہوری اور دینا بھر کی بھلائی کے لیے نصحیت کر رہا ہے اور اس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقعولیت ہے؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ ضد کیوں ہو؟ کھھلے دل سے اس بات سنو، دل کو لگتی ہو نہ مانو۔ |
Surah 23 : Ayat 72
أَمْ تَسْــَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے1
1 | یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کا ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض اپ کے پیش نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی ، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیں اور پتھر کھا رہے ہیں ،بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گۓ ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے ، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت 90۔ یونس 72۔ ہود 29۔ 51۔ یوسف 104۔ افرقان57۔ الشعراء ، 109۔ 127۔145۔ 164۔ 180۔ سباء 47۔ یٰسین 21۔ ص، 86 الشوریٰ 23 ، النجم 40 مع حواشی |
Surah 25 : Ayat 57
قُلْ مَآ أَسْــَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَآءَ أَن يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ سَبِيلاً
اِن سے کہہ دو کہ 1"میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے"
1 | تشریح کےلیے کےلیےملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلدسوم المومنون، حاشیہ۷۰۔ |
Surah 34 : Ayat 47
قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
اِن سے کہو، 1"اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے2"
2 | یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں |
1 | اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْر فَھُوَلکُمْ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا، میرااجر بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے : قُلْ مَآاَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْر اِلَّا مَنْ سَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً۔ (الفرقان 57) اے نبی، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ |
Surah 38 : Ayat 86
قُلْ مَآ أَسْــَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلْمُتَكَلِّفِينَ
(اے نبیؐ) اِن سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا1، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں2
2 | یعنی میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے جھوٹے دعوے لے کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ کچھ بن بیٹھتے ہیں جو فی لواقع وہ نہیں ہوتے۔یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے محض کفار مکہ کی اطلاع کے لیے نہیں کہوائی گئی ہے،بلکہ اس کے پیچھے حضورؐ کی وہ پوری زندگی شہادت کے طور پر موجود ہے جو نبوت سے پہلے انہی کفار کے درمیان چالیس برس تک گزر چکی تھی۔مکے کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک بناوٹی آدمی نہیں ہیں۔پوری قوم میں کسی شخص نے بھی کبھی اُن کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کرنے کی گنجائش ہوتی کہ وہ کچھ بننا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ |
1 | یعنی میں ایک بے غرض آدمی ہوں،اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے یہ تبلیغ نہیں کر رہا ہوں۔ |
Surah 42 : Ayat 23
ذَٲلِكَ ٱلَّذِى يُبَشِّرُ ٱللَّهُ عِبَادَهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِۗ قُل لَّآ أَسْــَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُۥ فِيهَا حُسْنًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے اُن بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے اے نبیؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ میں اِس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں1، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں2 جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے بے شک اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور قدر دان ہے3
3 | عنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس ، نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ (1)جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں ، اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے (2)ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ، یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے |
2 | اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔ ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشت دری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گۓ ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی ، اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ ، قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔ دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جاۓ‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔57)۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔‘‘ تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبد المطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے ، نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آۓ ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (یونس 72۔ ہود 29۔51۔ الشعراء 109۔127۔145۔164۔180)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت 21)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو(الانعام 90۔ یوسف 104۔ المؤمنون 72۔ الفرقان 57۔ سبا 47۔ ص 82۔ الطور 40۔ القلم 46)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوۓ ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روۓ سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے |
1 | اس کام‘‘ سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے |
Surah 52 : Ayat 40
أَمْ تَسْــَٔلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
کیا تم اِن سے کوئی اجر مانگتے ہو کہ یہ زبردستی پڑی ہوئی چٹی کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں؟1
1 | سوال کا اصل روۓ سخن کفار کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تم سے کوئی غرض رکھتا اور اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے یہ ساری دوڑ دھوپ کر رہا ہوتا تو اس سے تمہارے بھاگنے کی کم از کم ایک معقول وجہ ہوتی۔ مگر تم خود جانتے ہو کہ وہ اپنی اس دعوت میں بالکل بے غرض ہے اور محض تمہاری بھلائی کے لیے اپنی جان کھپا رہا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ٹھنڈے دل سے اس کی بات سننے تک کے روادار نہیں ہو؟ اس سوال میں ایک لطیف تعریض بھی ہے ۔ ساری دنیا کے بناوٹی پیشوا اور مذہبی آستانوں کے مجاوروں کی طرح عرب میں بھی مشرکین کے پیشوا اور پنڈت اور پروہت کھلا کھلا مذہبی کاروبار چلا رہے تھے ۔ اس پر یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ایک طرف یہ مذہب کے تاجر ہیں جو علانیہ تم سے نذریں ، نیازیں ، اور ہر مذہبی خدمت کی اجرتیں وصول کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ایک شخص کامل بے غرضی کے ساتھ، بلکہ اپنے تجارتی کاروبار کو برباد کر کے تمہیں نہایت معقول دلائل سے دین کا سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اب یہ سریح بے عقلی نہیں تو اور کیا ہے کہ تم اس سے بھاگتے اور ان کی طرف دوڑتے ہو |
Surah 68 : Ayat 46
أَمْ تَسْــَٔلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
کیا تم اِن سے کوئی اجر طلب کر رہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوں1؟
1 | سوال بظاہر رسول اللہ ﷺ سے کیا جا رہا ہے، مگر اصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو آپ کی مخالفت میں حد سے گزرے جا رہے تھے۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہمارا رسول تم سے کچھ مانگ رہا ہے کہ تم اس پر اتنا بگڑ رہے ہو؟ تم خود جانتے ہو کہ وہ ایک بے غرض آدمی ہے اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے صرف اس لیے کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ تم نہیں ماننا چاہتے تو نہ مانو، مگر اس تبلیغ پر آخر اتنے چراغ پا کیوں ہوئے جا رہے ہو؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، تفسیر سورۃ طور ، حاشیہ 31) |