Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 150
وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰٓ إِلَىٰ قَوْمِهِۦ غَضْبَـٰنَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِى مِنۢ بَعْدِىٓۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْۖ وَأَلْقَى ٱلْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُۥٓ إِلَيْهِۚ قَالَ ٱبْنَ أُمَّ إِنَّ ٱلْقَوْمَ ٱسْتَضْعَفُونِى وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِى فَلَا تُشْمِتْ بِىَ ٱلْأَعْدَآءَ وَلَا تَجْعَلْنِى مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
ادھر سے موسیٰؑ غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا آتے ہی اس نے کہا 1"بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے؟" اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھا ئی (ہارونؑ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا ہارونؑ نے کہا "اے میری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر"
1 | یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سےحضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی اُن پر چسپاں کر رکھا تھا ۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں (خروج۔باب۳۲۔آیت١۔٦)۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ، آیات ۹۰۔۹۴)۔ بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں، مثلاً شرک،جادوگری، زنا،جھوٹ، دغابازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو ، حتٰی کہ علماءو مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو اُن کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے،انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں، رشیوں ، مُنیوں اورتاروں کی ، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے اُن سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں اِن قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان اِن میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ہوں |
Surah 7 : Ayat 154
وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى ٱلْغَضَبُ أَخَذَ ٱلْأَلْوَاحَۖ وَفِى نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ
پھر جب موسیٰؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی اُن لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں
Surah 20 : Ayat 86
فَرَجَعَ مُوسَىٰٓ إِلَىٰ قَوْمِهِۦ غَضْبَـٰنَ أَسِفًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًاۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ ٱلْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِى
موسیٰؑ سخت غصّے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا جا کر اُس نے کہا 1"اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ 2یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟3"
3 | اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے۔ اس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔ |
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گۓ؟‘‘ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالٰی ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا ان کو کچھ بہت زیادہ مدت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گۓ؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سرمست ہو کر بہکنے لگے؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔ |
1 | ’’اچھا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا، غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے ان صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں ساۓ اور خوراک کا بندوبست کیا۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوۓ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا۔ |