Ayats Found (11)
Surah 7 : Ayat 57
وَهُوَ ٱلَّذِى يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَـٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ ٱلْمَآءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِۚ كَذَٲلِكَ نُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے، اور وہاں مینہ برسا کر (اُسی مری ہوئی زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو
Surah 22 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے1، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی2 (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے3 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی
3 | یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پرہنسنے لگتے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس ہے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے |
1 | اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گۓ تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کی سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآ ءٍ مَّھِیْنٍ O (آیات 7۔8) ’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے |
Surah 22 : Ayat 63
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَتُصْبِحُ ٱلْأَرْضُ مُخْضَرَّةًۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟1 حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے2
2 | ’’ لطیف‘‘ ہے ، یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اسکی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے آغاز میں کبھی ان کے انجام کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں ، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خورد بین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی، کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابل ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتا نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ’’خبیر‘’ ہے ، یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات ، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے ، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس طرح کرے |
1 | یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح یہ وحی کا باران رحمت جو آج ہو رہا ہے ، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا |
Surah 25 : Ayat 48
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً طَهُورًا
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک1 پانی نازل کرتا ہے
1 | یعنی ایسا پانی جو ہر طرح کی گندگیوں سے بھی پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے زہریلے مادوں اور جراثیم سے بھی پاک ۔ جس کی بدولت نجاستیں دھلتی ہیں اور انسان ، حیوان ، نباتات ، سب کو زندگی بخشنے والا جوہر خالص بہم پہنچتا ہے |
Surah 25 : Ayat 49
لِّنُحْــِۧىَ بِهِۦ بَلْدَةً مَّيْتًا وَنُسْقِيَهُۥ مِمَّا خَلَقْنَآ أَنْعَـٰمًا وَأَنَاسِىَّ كَثِيرًا
تاکہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے1
1 | اس آیت کے بھی وہی تین رخ ہیں جو اوپر والی آیت کے تھے ۔ اس میں توحید کے دلائل بھی ہیں اور آخرت کے دلائل بھی۔ اور ان دونوں مضمونوں کے ساتھ اس میں یہ لطیف مضمون بھی پوشیدہ ہے کہ جاہلیت کا دور حقیقت میں خشک سالی اور قحط کا دور تھا جس میں انسانیت کی زمین بنجر ہو کر رہ گئی تھی۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ نبوت کا ابر رحمت لے آیا جو علم وحی کا خالص آبِ حیات برسا رہا ہے ، سب نہیں تو بہت سے بندگان خدا تو اس سے فیض یاب ہوں گے ہی |
Surah 30 : Ayat 24
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ يُرِيكُمُ ٱلْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَيُحْىِۦ بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی1 اور آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے2 یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
2 | یہ چیز ایک طرف حیات بعدالموت کی نشان دہی کرتی ہے،اوردوسری طرف یہی چیزاس امرپربھی دلالت کرتی ہے کہ خداہےاورزمین وآسمان کی تدبیرکرنے والاایک ہی خداہے۔زمین کی بےشمارمخلوقات کے رزق کاانحصاراُس پیداوارپرہےجوزمین سے نکلتی ہے۔اس پیداوارکاانحصارزمین کی صلاحیتِ بارآوری پرہے۔اس صلاحیت کےروبکارآنےکاانحصاربارش پرہے،خواہ وہ براہِ راست زمین پربرسے،یااس کےذخیرے سطحِ زمین پرجمع ہوں،یازیرزمین چشموں اورکنوؤں کی شکل اختیارکریں،یاپہاڑوں پریخ بستہ ہوکردریاؤں کی شکل میں بہیں۔پھراس بارش کاانحصارسورج کی گرمی پر،موسموں کےردوبدل پر،فضائی حرارت وبرودت پر،ہواؤں کی گردش پر،اوراُس بجلی پرہےجوبادلوں سےبارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہےاورساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھاد بھی شامل کردیتی ہے۔زمین سے لے کرآسمان تک کی اِن تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اورمباسبتیں قائم ہونا،پھران سب کابےشمارمختلف النوع مقاصداورمصلحتوں کے لیےصریحًا ساز گارہونا،اورہزاروں لاکھوں برس تک ان کاپوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا،کیا یہ سب کچھ محض اتفاقًاہوسکتا ہے؟کیایہ کسی صانع کی حکمت اوراس کے سوچے سمجھے منصوبے اوراس کی غالب تدبیرکے بغیرہوگیا ہے؟اورکیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہےکہ زمین،سورج،ہوا،پانی،حرارت،برودت،اورزمین کی مخلوقات کاخالق اوررب ایک ہی ہے؟ |
1 | یعنی اس کی گرج اورچمک سے اُمید بھی بندھتی ہےکہ بارش ہوگی اورفصلیں تیار ہوں گی،مگرساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتاہےکہ کہیں بجلی نہ گرپڑے یاایسی طوفانی بارش نہ ہوجائےجوسب کچھ بہالےجائے۔ |
Surah 30 : Ayat 50
فَٱنظُرْ إِلَىٰٓ ءَاثَـٰرِ رَحْمَتِ ٱللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ ذَٲلِكَ لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اٹھاتا ہے1، یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
1 | یہاں جس انداز سےنبوت اوربارش کاذکریکے بعددیگرے کیاگیا ہےاس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لیےویسی ہی رحمت ہےجیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کےلیےرحمت ثابت ہوتی ہے۔جس طرح آسمانی بارش کے نزول سےمردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہےاوراس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں،اسی طرح آسمانی وحی کانزول اخلاق وروحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کوجِلااُٹھاتاہےاوراس میں فضائل ومحامد کےگلزارلہلہانے شروع ہوجاتے ہیں۔یہ کفار کی اپنی بدقسمتی ہی کہ خداکی طرف سےیہ نعمت جب ان کےہاں آتی ہےتووہ اس کاکفران کرتے ہیں اوراس کو اپنے لیےمثردہٴرحمت سمجھنے کےبجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔ |
Surah 35 : Ayat 9
وَٱللَّهُ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ ٱلرِّيَـٰحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَـٰهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ كَذَٲلِكَ ٱلنُّشُورُ
وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اسی زمین کو جِلا اٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی مرے ہوئے انسانوں کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا1
1 | یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہر حال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔ قیامت کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالٰی کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکا یک جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکا یک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سر سبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔ |
Surah 36 : Ayat 33
وَءَايَةٌ لَّهُمُ ٱلْأَرْضُ ٱلْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَـٰهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ
اِن لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے1 ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں
1 | یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے |
Surah 42 : Ayat 28
وَهُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ مِنۢ بَعْدِ مَا قَنَطُواْ وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُۥۚ وَهُوَ ٱلْوَلِىُّ ٱلْحَمِيدُ
وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی قابل تعریف ولی ہے1
1 | یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے ، جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے |