Ayats Found (2)
Surah 108 : Ayat 1
إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰكَ ٱلْكَوْثَرَ
(اے نبیؐ) ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا1
1 | کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار، شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لغوی معنی تو بے انتہا کثرت کے ہیں، مگر جس موقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو افراط اور افراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو، اور اس سے مراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کی نہیں بلکہ بے شمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے۔ دیباچے میں اس سورہ کا جو پس منظر ہم نے بیان کیا ہے اس پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈ ال کر دیکھیے۔حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد ﷺ ہر حیثیت سے تباہ ہو چکے ہیں۔ قوم سے کٹ کر بے یار و مددگار رہ گئے ۔ تجارت برباد ہو گئی۔ اولاد نرینہ تھی جس سے آگے ان کا نام چل سکتا تھا۔ وفات پا گئی۔ بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گنے چنے آدمی چھوڑ کر مکہ تو درکنار، پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے ان کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دوچار ہیں اور جب وفات پا جائیں گے تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو۔ اس حالت میں جب اللہ تعالی کی طرف سے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کو تم برباد ہو گئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ بھی تم سے چن گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نے ہم نے تمہیں بے انتہا خیر ا ور بے شمار نعمتوں سے نواز دیا ہے۔ اس میں اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضورؐکو بخشی گئیں۔ اس میں نبوت اور قرآن اورعلم اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئیں۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے، عام فہم، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع و ہمہ گیر اصول تمام عالم میں پھیل جانے اور ہمیشہ پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس میں رفع ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت حضورؐ کا نام نامی چودہ سو برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہو رہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کی دعوت سے بلآخر ایک ایسی عالمگیر امت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین حق کی علمبردار بن گئی، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضورؐ نے اپنی آنکھوں سے اپنی حیات مبارکہ میں ہی اپنی دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہو گئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولادنرینہ سے محروم ہو جانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا ، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ سے آپ کو وہ جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ اخفتار ہی حضورؐ سے اس کا انتساب ہے۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کس فراونی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد دو مزید ا یسی عظیم نعمتیں بھی ہیں جو آخرت میں اللہ تعالی آپ کو دینے والا ہے۔ ان کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ان کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں۔ ایک حوضِ کوثر جو قیامت کے روز میدان حشر میں آپ کو ملے گا دوسرے نہرِ کوثر جو جنت میں آپ کو عطا فرمائی جائے گی۔ ان دونوں کے متعلق اس کثرت سے احادیث حضورؐ سے منقول ہوئی ہیں اور اتنے کثیر روایوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ ان کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ حوضِ کوثر کے متعلق حضورؐ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے۔
(۱) یہ حوض قیامت کے روز آپ کو عطا ہوگا اور اُس سخت وقت میں، جبکہ ہر ایک العَطَش العَطَش کر رہا ہوگا، آپ کی امت آپ کے پاس اُس پر حاضر ہوگی اور اس سے سیراب ہوگی۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اُس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے۔ آپ کا ارشاد ہے ھوحوض ترد علیہ امتی یوم القیمٰہ ۃ ’’ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روزوارد ہوگی‘‘ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ۔ ابوداؤد، کتاب السنہ) اَناَفَرطکم علی الحوض۔ ’’ میں تم سب سے پہلے اس پر پہنچا ہوں گا‘‘(بخاری ) کتاب الزقاق اور کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب لفضائل اور کتاب الطہارۃ۔ ابن ماجہ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد۔ مُسند احمد، مرویاتِ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباسؓ، وابوہریرہّؓ) انی فرط لکم وانَا شھِد علیکم انی واللہ لا نظوالٰی حوضی الَا ن۔ ’’ میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں، بخاری، کتاب النجائز، کتاب المغازی، کتاب الرقاق) انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا انکم ستلقون بعدی اَثَرۃ فا صبروا حق تلقونی علی الحوض۔ ’’ میرے بعد تم کو خود غرضیوں اور قربانوازیوں سے پالا پڑے گا، اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ کر حوض پر ملو‘‘ ( بخاری، کتاب مناقب الانصارو کتاب المغازی۔ مسلم، کتاب الامارہ۔ ترمزی، کتاب الفتن)۔ اناَ یوم القیمٰہ عِنُد عقرالحوض ’’ میں قیامت کے روز حوض کے وسط کے پاس ہوں گا‘‘ ( مسلم، کتاب الفضائل)۔ حضرت ابوبَرُزہؓ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسولﷺ سے کچھ سنا ہے؟
انہوں نے کہا ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں، پانچ نہیں، بار بار سنا ہے، جو اُس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی پینا نصیب نہ کرے ( ابوداؤد، کتاب السنہ)۔ عبید اللہ بن زیاد حوض کے بادے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تھا، حتی کہ اس نے حضرت ابوبَرُزہ اسلمی، برا بنؓ عازب اور عائز بنؓ عَمروکی سب روایات کو جھٹلادیا۔ آخر کار ابوسَبرُہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے عبد اللہ بن عمروؓ بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں حضورﷺ کا یہ ارشاد درج تھا کہ اَلا اِن موعد کم حوضی ’’ خبردار رہو، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے، رمسند احمد، مرویات عبداللہ ؓبن عمرو بن عاص)۔
(۲) اُس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ آیلہ ( اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ اَیلات) سے یمن کے صنعا تک، یا ایلہ سے عدن تک، یا عَمان سے عدن تک طویل ہو گا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا اَیلہ سے حجفہ (جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام) تک کا فاصلہ ہے۔ ( بخاری، کتاب الرقاق۔ ابوداؤد لطیبالِسی، حدیث نمبر ۹۹۵۔ مُسند احمد مرویات ابو بکر صدیقؓ وعبد اللہ بنؓ عمر۔ مسلم، کتاب الطہارۃ دکتاب الفضائل۔ ترمزی، ابواب صفتہ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزہد) اس سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحرا حمر ہی کو حوضِ کوثر میں تبدیل کر دیا جائے گا، واللہ اعلم بالصواب۔
(۳) اس حوض کے متعلق حضورﷺ نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر ( جس کا زکر آگے آ رہا ہے) سے پانی لا کر ڈالا جائے گا۔ یشخب فیہہ میزابان من الجنت، اور دوسری روایات میں ہے یغت فیہہ میزابان یمد انا من الجنت یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لا کر ڈالی جا ئیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی، مسلم، کتاب الفضائل)۔ ایک اور روایت میں ہے یُفتح نھرمن الکوثرالی الحوض، جنت کی نہر کوثرسے ایک نہر اس حوض کی طرف کھول دی جائے گی ( مُسند احمد، مرویات عبداللہ بن مسعوؓد)۔
(۴) اس کی کیفت حضورﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے ( اور بعض روایات میں ہے چاندی سے اور بعض میں برف سے) زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، اس کی تہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہو گی، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے۔ جتنے آسمان میں تارے ہیں۔ جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت احادیث میں منقول ہوئی ہیں ( بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب الطہارت وکتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعوؓد، ابن عمرؓ، ابن عبداللہ ؓبن عَمروبن العاص۔ ترمزی، ابواب صفتہ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزھد۔ ابوداؤد طَببالِسی، حدیث ۹۹۵۔
(۵) اس کے بارے میں حضورﷺ نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اُس حوض سے ہٹا دیا جائے گا ااور اس پر اُنہیں نہ آنے دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب ہیں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے۔ پھر میں بھی اُن کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے ( بخاری کتاب الرقاق، کتاب افتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعودؓ ابوہریرہؓ۔ ابن ماجہ، کتاب المناسک۔ ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی دردناک الفاظ میں ہے۔ اس میں حضورﷺ فرماتے ہیں الاوانی فر طلکم علی الحوض واکا ثر بکم الاھم فلا تسودوازجھی‘ الا و اِنی مستنقد اُنا ساً و مستنقزاناس منی فاقول یارب اسیحابی فیقول انک لا تددی ما احد ثوابعدا‘ خبردار رہو، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخرکروں گا۔ اُس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا۔ وہ فرمائے گا تم نہیں جانتے اِنہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضورﷺ نے عرفات کے خطبے میں فرمائے تھے)۔
(۶) اسی طرح حضورﷺ نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں رد بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں، میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا آپ کو معلوم نہیں کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور اُلٹے ہی پھرتے چلے گئے۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں۔ ( بخاری، کتاب المساقات، کتاب الرقاق، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الصلٰواۃ، کتاب الفضا ئل۔ ابن ماجہ، کتاب الزید۔ مُسنداحمد، مرویات ابن عباسؓ)۔
اس حوض کی روایات ۵۰ سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں، اور سلف نے بالعموم اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے۔امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے باب فی العصوض و قول اللہ انا ا عطینٰک الکوثراور حضر ت انس کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضورﷺ نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امتی۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہو گئی۔
جنت میں کوثر نامی جو نہر رسولﷺ کو عطا کی جائے گی اس کا زکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے۔حضرت انس ؓ سے بہت سی رویات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں (اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسولﷺ کے قول کی حیثت سے بیان کرتے ہیں)کہ معراج کے موقع پر حضور ﷺ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور اس موقع پر آپ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئےموتیوں یا ہیروں کے قُبے بنے ہوئے تھے۔اس کی تہہ کی مٹی مشکِ اذفر کی تھی۔حضور ﷺ نے جبریل سے،یا آس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی،پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالی نے عطا کی ہے (مُسند احمد،بخاری،مسلم،ابوداود،ترندی،ابوداؤد طیالِسی،ابن جریر)حضرت انس کی ہی روایت ہے کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا (یا ایک شخص نے پوچھا)کوثر کیا ہے آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالٰی نے مجھے جنت میں عطا کی ہے۔اس کی مٹی مشک ہے۔اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے(مسند احمد، ترمذی، ابن جریر۔مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں)۔ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں ،وہ موتیوں اور ہیروںن پر بہہ رہی ہے(یا برف ہے) زیادہ سفید ہے،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے(مسند احمد،ترمذی،ابن ماجہ،ابن ابی حاتم،درامی،ابوداوؤد طیالسی،ابن المنذر،ابن مزدویہ،ابن ابی شیبہ)۔اسامہؓ بن ذید کی روایت ہے کہ رسولﷺ ایک مرتبہ حضرت حمزہؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔وہ گھر پر نہ تھے۔ان کی اہلیہ نے حضورﷺ کی تواضع کی اور دوران گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس کا نام کوثر ہے۔آپﷺ نے فرمایا،اور اس کی ذمین یا قوت و مرجان اور زبرجد اور موتیوں کی ہےابن جریر،ابن مردویہ۔اس کی سند اگرچہ ضیعف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعدادروایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچا تا ہے)۔ان مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے بکثرت اقوال احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں وہ کوثر سے مراد جنت کی یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں۔ مثال کے طور پرحضرت عبدؓاللہ بن عمر،حضرت عبدؓاللہ بن عباسؓ،حضرت انسؓبن مالک،حضرت عائشہؓ،مجاہد،اور ابوالعالیہ کے اقوال مسند احمد،بخاری،ترمذی،نسانی،ابن مردویہ،ابن جریر،اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں۔
|
Surah 108 : Ayat 3
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ ٱلْأَبْتَرُ
تمہارا دشمن1 ہی جڑ کٹا ہے2
2 | ھُوَ الْاَبْتَر۔ ‘‘’’وہی ابتر ہے‘‘ فرمایا گیا ہے ، یعنی آپ کو ابتر کہتا ہے، لیکن حقیقت میں ابتر وہ خود ہے۔ ابتر کی کچھ تشریح ہم اس سے پہلے اس سورۃ کے دیباچے میں کر چکے ہیں۔ یہ لفظ بتر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔ مگر محاورے میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حدیث میں نماز کی اس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جا ئے بتیراء کہا گیا ہے، یعنی اکیلی رکعت۔ ایک اور حدیث میں ہے کل ا مر ذی بال لا یبد افیہ بحمد اللہ فھو ابتر۔ ’’ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے۔ ذرائع و وسائل سے محروم ہو جانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے۔ جس شخص کے لیے خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں منقطع ہو گئی ہوں وہ بھی ابتر ہے۔ جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے۔ جس آدمی کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہو یا مرگئی ہو، اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا اور مرنے کے بعد وہ بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔ قریب قریب ان سب معنوں میں کفار قریش رسول اللہﷺ کو ابتر کہتے تھے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے نبی، ابتر تم نہیں ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن ابتر ہیں۔ یہ محض کوئی ’’ جوابی حملہ‘‘ نہ تھا بلکہ در حقیقت یہ قرآن مجید کی بڑی اہم پیشنگوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ جس وقت یہ پیشنگوئی کی گئی تھی اس وقت لوگ حضورؐ ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں گے جو نہ صرف مکہ میں بلکہ پورے عرب میں نامور تھے، کامیاب تھے مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں نہیں رکھتے تھے بلکہ سار ملک میں جگہ جگہ ان کے اعوان و انصار موجود تھے۔ تجارت کے اجارہ دا ر، حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے۔ لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے ۔ یا تو وہ وقت تھا کہ عزوہ احزاب (5ہجری) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبال کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضورؐ کو محصور ہو کر شہر کے گرد خندق کھود کر مدافعت کرنی پڑی تھی یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ 8 ہجری میں جب آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تو قیرش کا کوئی حامی مدد گار نہ تھا اور ا نہیں بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضورؐ کے ہاتھ میں تھا، ملک کے گوشے گوشے سے قبائل کے وفود آ کر بیعت کر رہے تھے ا ور آپ کے دشمن بالکل بے بس اور بے یارو مدد گار ہو کررہ گئے تھے ۔ پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی ا ولاد اگر دنیا میں باقی رہی بھی تو ان میں سے آج کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عقبہ بن ابی مغیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں سے ہے اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے۔ اس کے برعکس رسول اللہ ﷺ کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جا رہا ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے۔ لاکھوں انسان آپؐ ہی سے نہیں بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں کے خاندانوں تک سے انتساب کو باعث عزو شرف سمجھتے ہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی علوی، کوئی عباسی ہے، کوئی ہاشمی ہے، کوئی صدیقی ہے، کوئی فاروقی ، کوئی عثمانی ، کوئی زبیری اور کوئی انصاری۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں پایا جاتا۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ ابتر حضورؐ نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں |
1 | اصل میں لفظ شَا نِئَکَ۔ ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ شانی شن سے ہے جس کے معنی ایسے بغض اور ایسی عداوت کے ہیں جس کی بنا پر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ بد سلوکی کرنے لگے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا وَ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰ نُ قَوْ مٍ عَلیٰۤ اَ لَّا تَعْدِلُوْا۔ ‘‘’’اور اے مسلمانو، کسی گروہ کی عداوت تمہیں اس زیادتی پر آمادہ نہ کرنے پائے کہ تم انصاف نہ کرو‘‘۔ پس شانئک سے مراد ہر وہ شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ کی دشمنی اور عداوت میں ایسا اندھا ہو گیا ہو کہ آپ کو عیب لگاتا ہو، آپ کے خلاف بد گوئی کرتا ہو، آپ کی توہین کرتا ہو، اور آپ پر طرح طرح کی باتیں چھانٹ کر اپنے دل کا بخار نکالتا ہو |