Ayats Found (3)
Surah 33 : Ayat 13
وَإِذْ قَالَت طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ يَـٰٓأَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَٱرْجِعُواْۚ وَيَسْتَــْٔذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ ٱلنَّبِىَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِىَ بِعَوْرَةٍۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا
جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ 1"اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو" جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ 2"ہمارے گھر خطرے میں ہیں،" حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے
3 | یعنی اس خطرے سے بچاؤ کا انتظام تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر چکے تھے۔ یہ انتظام بھی دفاع کی اُس مجموعی سکیم ہی کا ایک حصّہ تھا جس پر سالار لشکر کی حیثیت سے حضورؐ عمل فرما رہے تھے۔ اس لیے کوئی فوری خطرہ اس وقت نہ تھا جس کی بنا پر ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی معقول ہوتا |
2 | یعنی جب بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ کل گئے تو ان منافقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر سے نکل بھاگنے کے لیے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں، لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے۔ حالانکہ اُس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمّہ در رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ بنی قریظہ کے بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا حضورؐ کا کام تھا نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا۔ |
1 | اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ظاہری مطلب یہ ہے کہ خندق کے سامنے کفار کے مقابلے پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، شہر کی طرف پلٹ چلو۔ اور باطنی مطلب یہ ہے کہ اسلام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، اب اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جانا چاہیے تاکہ سارے عرب کی دمنی مول لے کر ہم نے جس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے اُس سے بچ جائیں۔ منافقین اپنی زبان سے اس طرح کی باتیں اس لیے کہتے تھے کہ جو ان کے دام میں آ سکتا ہو اس کو تو اپنا باطنی مطلب سمجھا دیں، لیکن جو ان کی بات سُن کر چوکناّ ہو اور اس پر گرفت کرے اس کے سامنے اپنے ظاہر الفاظ کی آڑ لے کر گرفت سے بچ جائیں۔ |
Surah 33 : Ayat 60
۞ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَٱلْمُرْجِفُونَ فِى ٱلْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَآ إِلَّا قَلِيلاً
اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے1، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں2، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے
2 | اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔ |
1 | دِل کی خرابی‘‘ سے مراد یہاں دو قسم کی خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی، آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھُوٹے پڑتے ہوں۔ |
Surah 63 : Ayat 8
يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَآ إِلَى ٱلْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّۚ وَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے1 گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے2، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں
2 | یعنی عزت اللہ کے لیے بالذات مخصوص ہے ، اور رسول کے لیے بر بناۓ رسالت، اور مومنین کے لیے بر بناۓ ایمان۔ رہے کفار و فُسّاق و منافقین، تو حقیقی عزت میں سرے سے ان کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے۔ |
1 | حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن ابی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا، اور اس نے آ کر صاف انکار کر دیا اور اس پر قَسم کھا گیا، تو انصار کے بڑے بوڑھوں نے اور خود میرے اپنے چچا نے مجھے بہت ملامت کی، حتیٰ کہ مجھے یہ محسوس ہو ا کہ حضورؐ نے بھی مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا ہے۔ اس چیز سے مجھے ایسا غم لاحق ہوا جو عمر بھی کبھی نہیں ہوا اور میں دل گرفتہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بلا کر ہنستے ہوۓ میرا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے کا کان سچا تھا، اللہ نے اس کی خود تصدیق فرما دی (ابن جریر۔ترمذی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے ) |