Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 126
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا ءَامِنًا وَٱرْزُقْ أَهْلَهُۥ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ مَنْ ءَامَنَ مِنْهُم بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُۥ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُۥٓ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلنَّارِۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: "اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے2" جواب میں اس کے رب نے فرمایا: "اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے"
2 | حضرت ابراہیم ؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے ، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیم ؑ رزق کے لیے دُعا کر نے لگے ، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر اُنہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزق ِ دُنیا دُوسری چیز۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی، مگر رزقِ دُنیا مومن و کافر سب کو دیا جائےگا۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دُنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے |
Surah 3 : Ayat 96
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَـٰلَمِينَ
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا1
1 | یہودیوں کا دُوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدِس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدِس ہی تھا۔ اس کا جواب سُورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے ۔ لیکن یہُودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مُصِررہے۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیاہے۔ بیت المقدِس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ نے اس کو تعمیر کیا (١۔سلاطین، باب ٦۔آیت ١)۔ اور حضرت سلیمان ؑ ہی کے زمانہ میں وہ قبلہٴ اہلِ توحید قرار دیا گیا(کتاب مذکور، باب ۸، آیت ۲۹۔۳۰)۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا ، اور وہ حضرت موسیٰ ؑ سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ۔ لہٰذا کعبہ کی اوّلیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں |
Surah 14 : Ayat 35
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِيمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا ٱلْبَلَدَ ءَامِنًا وَٱجْنُبْنِى وَبَنِىَّ أَن نَّعْبُدَ ٱلْأَصْنَامَ
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دعا کی تھی1 کہ 2"پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا
1 | عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اُن خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو |
Surah 14 : Ayat 37
رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ فَٱجْعَلْ أَفْــِٔدَةً مِّنَ ٱلنَّاسِ تَهْوِىٓ إِلَيْهِمْ وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٲتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے1، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں
1 | یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کروہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل ،غلّے ، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا |
Surah 27 : Ayat 91
إِنَّمَآ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ ٱلْبَلْدَةِ ٱلَّذِى حَرَّمَهَا وَلَهُۥ كُلُّ شَىْءٍۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
(اے محمدؐ، اِن سے کہو) "مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اِس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اِسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے1 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں
1 | یہ سورۃ چونکہ زمانے میںنازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اورمخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے، اس لیے فرمایا’’ مجھے اس شہر کےرب کی بندگی کاحکم دیاگیا ہے‘‘ اس کے ساتھ رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے اسےحرام بنایا ہے۔ اس سے کفارمکہ کومتنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس خدا کاتم پریہ احسان عظیم ہے کہ اس نے عرب کی انتہائی بدامی اورفساد خونریزی سےلبریزسرزمین مین تمہارے اس شہر کوامن کاگہوارہ بنارکھا ہے، اور جس کےفضل سے تمہارا یہ شہر پورے ملک عرب کا مرکز عقیدت بناہُوا ہے، تم اس کی ناشکری کرنا چاہو تو کرتے رہو، مگر مجھے تویہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنوں اوراسی کے آگے سرنیاز جھکاؤں ۔ تم جنہیں معبود بنائے بیٹھے ہوان میں سے کسی کی یہ طاقت نہ تھی کہ اس شہر کوحرم بنادیتا اورعرب جنگجو اورغارت گر قبیلوں سے اس کا احترام کرسکتا۔ میرےلیے تویہ ممکن نہیں ہے کہ اصل محسن کو چھوڑ کراُن کے آگے جھکوں جن کاکوئی ذرہ برابر بھی احسان مجھ پرنہیں ہے۔ |
Surah 48 : Ayat 24
وَهُوَ ٱلَّذِى كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنۢ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ وہ اُن پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا
Surah 90 : Ayat 1
لَآ أُقْسِمُ بِهَـٰذَا ٱلْبَلَدِ
نہیں1، میں قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی2
2 | یعنی شہر مکہ کے اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔ اہل مکہ اپنے شہر کا پس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بے آب و گیاہ وادی میں سنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بے سہارا چھوڑا، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی اس منادی کا سننے والا نہ تھا، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صد ہا برس تک عرب کی سرزمین بے آئین میں اس کے سوا من کا کوئی مقام نہ تھا |
1 | اس سے پہلے ہم سورہ قیامہ میں حاشیہ نمبر 1 میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز ‘‘نہیں’’ سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا، تو اس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرز زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ، اور جب وقت آ تو مر جاؤ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواہ مخواہ ہمارے اس طرز زندگی کو غلط ٹھہرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اس پر کبھی ہم سے باز پرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا |
Surah 90 : Ayat 3
وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ
اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی1
1 | چونکہ مطلقاً باپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور آگے انسان کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے باپ سے مراد آدم علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو دنیا میں پائے گئے ہیں، اب پائے جاتے ہیں اور آئندہ پائے جائیں گے |
Surah 95 : Ayat 5
ثُمَّ رَدَدْنَـٰهُ أَسْفَلَ سَـٰفِلِينَ
پھر اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا1
1 | مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر، یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا۔ لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سورہ نازل ہوئی۔ سورۃ کا مقصود جزا و سزا کے برحق ہونے پر ا ستدلال کرنا ہے۔ اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں ، اورنہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے برے، دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہو تی ہے، اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو۔ رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا کستا ہے۔ جنہیں آخرت ہی کی جزا و سزا کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے؟ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پرپیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم ا ور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے ا ور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ا نسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے۔ حرص ، طمع ، خود غرضی ، شہوت پرستی ، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسرے خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لیے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے۔ جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ، بندوق، ٹینک، ہوائی جہاز ، ایٹم بم، ھائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لیے ایسے ایسے درد ناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آ سکتا۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں۔ ماؤں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو۔ یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے، اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کر دیتا ہے۔ حتی کہ مذہب، جوانسان کے لیے مقدس ترین شے ہے، اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پوج ڈالتا ہے، اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں میں دیو داسیاں رکھتا ہے جن سے زنکا کا ارتکاب کارِ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ جن ہستیوں کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس دیو مالا میں ایسے ایسے گندے قصے منسوب ہوتے ہیں جو ذ لیل ترین انسان کے لیے بھی باعثِ شرم ہیں |