Ayats Found (5)
Surah 17 : Ayat 77
سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَاۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلاً
یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا1 تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے
1 | یعنی سارے انبیاء کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ جس قوم نے ان کو قتل یا جلا وطن کیا، پھر وہ زیادہ دیر تک اپنی جگہ نہ ٹھیر سکی۔ پھر یا تو خدا کے عذاب نے اسے ہلاک کیا، یا کسی دشمن قوم کو اس پر مسلط کیا گیا، یا خود اسی نبی کے پیرووں سے اس کو مغلوب کرادیا گیا۔ |
Surah 33 : Ayat 62
سُنَّةَ ٱللَّهِ فِى ٱلَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلُۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلاً
یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے1
1 | یعنی یہ اللہ کی شریعت کا ایک مستقل ضابطہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ جب بھی کسی معاشرے اور ریاست کا نظام خدائی شریعت پر قائم ہو گا اُس میں ایسے لوگوں کو پہلے متنبہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی روش بدل دیں ، اور پھر جب وہ باز نہ آئیں گے تو سختی کے ساتھ ان کا استیصال کر ڈالا جائے گا |
Surah 35 : Ayat 43
ٱسْتِكْبَارًا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَكْرَ ٱلسَّيِّىِٕۚ وَلَا يَحِيقُ ٱلْمَكْرُ ٱلسَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِۚۦ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ ٱلْأَوَّلِينَۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ ٱللَّهِ تَبْدِيلاًۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ ٱللَّهِ تَحْوِيلاً
یہ زمین میں اور زیادہ استکبار کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں اب کیا یہ لوگ اِس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی اِن کے ساتھ بھی برتا جائے؟1 یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے
1 | یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے |
Surah 48 : Ayat 23
سُنَّةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلاً
یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے1 اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے
1 | اس جگہ اللہ کی سنت سے مراد یہ ہے کہ جو کفار اللہ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔ اور اپنے رسول کی مدد فرماتا ہے |
Surah 30 : Ayat 30
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًاۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَاۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس1 (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین2 کی سمت میں جما دو3، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے4، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی5، یہی بالکل راست اور درست دین ہے6، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
6 | یعنی فطرتِ سلیمہ پرقائم رہنا ہی سیدھااورصحیح طریقہ ہے۔ |
5 | یعنی خدانے انسان کو اپنابندہ بنایاہےاوراپنی ہی بندگی کے لیے پیداکیا ہے۔یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتاہے،نہ کسی غیرخداکوخدابنالینے سےوہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتاہے۔انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنابیٹھے،لیکن یہ امرِواقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خداکےسوا کسی کابندہ نہیں ہے۔انسان اپنی حماقت اورجہالت کی بنا پرجس کو چاہے خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے لےاورجسےبھی چاہے اپنی قسمت کابنانے اوربگاڑنے والاسمجھ بیٹھے،مگرحقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالٰی کے سواکسی کوحاصل ہیں نہ اس کے اختیارات،اورنہ کسی دوسرے کےپاس یہ طاقت ہےکہ انسان کی قسمت بناسکےیابگاڑسکے۔ایک دوسراترجمہ اس آیت کایہ بھی ہوسکتاہے کہ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے‘‘۔یعنی اللہ نے جس فطرت پرانسان کوپیداکیاہے اس کو بگاڑنااورمسخ کرنادرست نہیں ہے۔ |
4 | یعنی تمام انسان اِس فطرت پرپیداکیے گئے ہیں کہ ان کاکوئی خالق اورکوئی رب اورکوئی معبود اورمُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوانہیں ہے۔اسی فطرت پرتم کوقائم ہوجاناچاہیے۔اگرخود مختاری کارویہ اختیارکروگےتب بھی فطرت کے خلاف چلوگےاوراگربندگئ غیر کاطوق اپنے گلےمیں ڈالوگےتب بھی اپنی فطرت کےخلاف کام کروگے۔اس مضمون کو متعدداحادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایاہے۔بخاری ومسلم میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مامن مولود یولدالا علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجانہ کماتنتج البھیمتہ بھیمتتہ جمعاء ھل تحسون فیھامن جدعاء۔یعنی ہربچہ جوکسی ماں کے پیٹ سےپیداہوتاہے،اصل انسانی فطرت پرپیداہوتاہے۔یہ ماں باپ ہیں جواسےبعد میں عیسائی یا یہودی یامجوسی وغیرہ بناڈالتےہیں۔اس کی مثال ایسی ہےجیسےہرجانورکے پیٹ سےپوراکا پورا صحیح وسالم جانوربرآمد ہوتاہے،کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کرنہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بناپراس کے کان کاٹتے ہیں۔مُسنداحمد اورنسائی میں ایک اورحدیث ہےکہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کردیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہوئی توسخت ناراض ہوئے اورفرمایا مابال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتٰی قتلواالذُّریّتہ،’’لوگوں کوکیا ہوگیا کہ آج وہ حد سےگزرگئےاوربچوں تک کو قتل کرڈالا‘‘۔ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کےبچے نہ تھے؟فرمایا انما خیارکم ابناءالمشرکین،’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تواولاد ہیں‘‘۔پھرفرمایا کل نسمتہ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فابواھا یھودانھااو ینصرانھا،’’ہر متنفس فطرت پرپیداہوتاہے،یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پرآتی ہے توماں باپ اسےیہودی یانصرانی بنالیتے ہیں‘‘۔ایک اور حدیث جوامام احمدؓ نےعیاض بن حمارالجُاشِعِی سے نقل کی ہےاس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روزنبی ﷺنےاپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم وانھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم وحَرَّمَت علیہم مااحللتُ لھم واَمَرَتھم ان یشرکوابی مالم انزل بہِ سُلطَانًا۔’’میرارب فرماتاہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیداکیاتھا،پھرشیاطین نے آکرانہیں ان کے دین سےگمراہ کیا،اورجوکچھ میں نے ان کے لیےحلال کیاتھااسے حرام کیا،اورانہیں حکم دیاکہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پرمیں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے‘‘۔ |
3 | ’’یک سو ہوکراپنارُخ اِس طرف جمادو‘‘یعنی پھرکسی اورطرف کارُخ نہ کرو۔زندگی کےلیے اِس راہ کو اختیارکرلینے کےبعدپھرکسی دوسرے راستےکی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔پھرتمہاری فکراورسوچ ہوتو مسلمان کی سی اورتمہاری پسنداور ناپسند ہوتومسلمان کی سی۔تمہاری قدریں اورتمہارے معیارہوں تووہ جواسلام تمہیں دیتا ہے،تمہارے اخلاق اورتمہاری سیرت وکردار کاٹھپّہ ہوتواُس طرح کاجواسلام چاہتاہے،اورتمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کےمعاملات چلیں تواُس طریقے پرجواسلام نے تمہیں بتایاہے۔ |
2 | اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کررہا ہے،جس میں بندگی،عبادت،اورطاعت کامستحق اللہ وحدہ لاشریک کےسوااورکوئی نہیں ہے،جس میں الُوہیّت اوراس کی صفات واختیارات اوراس کے حقوق میں قطعًا کسی کوبھی اللہ تعالٰی کےساتھ شریک نہیں ٹہرایا جاتا،جس میں انسان اپنی رضاورغبت سے اس بات کی پابندی اختیارکرتاہےکہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اوراس کے قانون کی پیروی میں بسرکرے گا۔ |
1 | یہ ’’پس‘‘اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پرکھل چکی،اورتم کومعلوم ہوگیاکہ اس کائنات کااور خود انسان کاخالق ومالک اورحاکم ذی اختیارایک اللہ کے سوااورکوئی نہیں ہے تواس کے بعد لامحالہ تمہاراطرزِعمل یہ ہوناچاہیے۔ |