Ayats Found (2)
Surah 93 : Ayat 1
وَٱلضُّحَىٰ
قسم ہے روز روشن کی1
1 | یہاں لفظ ضحی رات کے مقابلہ میں ا ستعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد روزِ روشن ہے۔ اس کی نظیر سورہ اعراف کی یہ آیات ہیں: ’’أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ‘‘ (97۔98) ’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آ جائے جبکہ وہ سو ر ہے ہوں؟ اور کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن دہاڑے آ جاسے جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟‘‘ ان آیات میں بھی چونکہ ضحی کا لفاظ رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد چاشت کا وقت نہیں بلکہ دن ہے |
Surah 93 : Ayat 3
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ
(اے نبیؐ) تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا1
1 | روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا نزول بند رہا تھا۔ مختلف روایات میں یہ مدت مختلف بیان کی گئی ہے۔ ابن جریح نے 12 روز، کلبی نے 15 روز ، ابن عباسؓ نے 25 روز، سدی اور مقاتل نے 40 روز اس کی مدت بیان کی ہے۔ بہرحال یہ زمانہ اتنا طویل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر سخت غمگین ہو گئے تھے اور مخالفین بھی آپ کو طعنے دینے لگے تھے، کیونکہ حضورؐ پر جو نئی سورت نازل ہوتی تھی اسے آپ لوگوں کو سنایا کرتے تھے، اس لیے جب اچھی خاصی مدت تک آپ نے کوئی نئی وحی لوگوں نہیں سنائی تو مخالفین نے سمجھ لییا کہ وہ سرچشمہ بند ہو گیا ہے جہاں سے یہ کلام آتا تھا۔ جندب بن عبداللہ ا لبجلی کی روایت ہے کہ جب جبریلؑ کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو مشرکین نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے۔ (ابن جریر، طبرانی، عبد حمید، سعید بن منصور ، ابن مردویہ)۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کی بیوی امِ جمیل نے، جو حضورؐ کی چچی ہوتی تھی اور جس کا گھر حضورؐ کے مکان سے متصل تھا، آپ سے کہا ’’معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے‘‘۔عونی اور ابن جریر نے ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ کئی روز تک جبریل کی آمد رک جانے سے حضورؐ پریشان ہوگئے اور مشرکین کہنے لگے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ قتادہ اور ضحاک کی مرسل روایات سے بھی قریب قریب یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اس صورتِ حال میں حضورؐ کے شدید رنج و غم کا حال بھی متعدد روایات میں آیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ محبوب کی طرف سے بظاہر عدم التفات، کفر و ایمان کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بعد اسی ذریعہ طاقت سے بظاہر محرومی جو اس جاں گسل کشمکش کے منجدھار میں آپؐ کے لیے واحد سہارا تھا، اور اس پر مزید دشمنوں کی شماتت ، یہ ساری چیزیں مل جل کر لا محالہ حضورؐ کے لیے سخت پریشانی کی موجب ہو رہی ہوں گی اور آپ کو بار بار یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کہیں مجھ سے کوئی قصور تو نہیں ہو گیا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اور اس نے مجھے حق و باطل کی لڑائی میں تنہا چھوڑ دیا ہو۔ اسی کیفیت میں یہ سورۃ حضورؐ کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی۔ اس میں دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم کھا کر حضورؐ سے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ اس بات پر ان دونوں چیزوںکی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہ ے کہ جس طرح دن کا روشن ہونا اور رات کا تاریکی اور سکون لیے ہوئے چھا جانا کچھ اس بنا پر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی دن کے وقت لوگوں سے خوش اور رات کے وقت ان سے ناراض ہو جاتا ہے، بلکہ یہ دونوں حاتیں ایک عظیم حکمت و مصلحت کے تحت طاری ہوؤی ہیں، اسی طرح تم پر کبھی وحی بھیجنا اور کبھی اس کو روک لینا بھی ح کمت و مصلحت کی بنا پر ہے اس کاکوئی تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ جب اللہ تعالی تم سے خوش ہو تو وحی بھیجے اور جب وہ وحی نہ بھیجے تو اس کے معنی یہ ہوں کہ وہ تم سے ناخوش ہے اور اس نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ دوسری مناسبت اس مضمون سے اس قسم کی یہ ہے کہ جس طرح دن کی روشنی اگر مسلسل آدمی پر طاری رہے تو وہ اسے تھکا دے ، اس لیے ایک وقت خاص تک دن کے روشن رہنے کے بعد رات کا آنا ضروری ہے تاکہ اس میں انسان کو سکون ملے اسی طرح وحی کی روشنی اگر تم پر پے درپے پڑتی رہے تو تمہارے اعصاب اس کو برداشت نہ کر سکیں گے، اس لیے وقتا فقوتا فترہ (نزول وحی کا سلسلہ رک جانے) کا ایک ز منہ بھی اللہ تعالی نے مصلحت کی بنا پر رکھا ہے تاکہ وحی کے نزول سے جو بار تم پر پڑتا ہے اس کے اثرات زائل ہو جائیں اور تمہیں سکون حاصل ہو جائے۔ گویا آفتاب وحی کا طلوع بمنزلہ روز روشن ہے اور زمانہ فترۃ بمنزلہ سکون ِ شب |