Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 60
۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۖ كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے1 اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
1 | وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی جھگڑا نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 160
وَقَطَّعْنَـٰهُمُ ٱثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًاۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ إِذِ ٱسْتَسْقَـٰهُ قَوْمُهُۥٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنۢبَجَسَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْغَمَـٰمَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی1 اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارا2 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے3
3 | اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے |
2 | اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کاذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور عذاریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲، ۷۳، ۷٦) |
1 | اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کےاندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اورلاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے |
Surah 20 : Ayat 12
إِنِّىٓ أَنَا۟ رَبُّكَ فَٱخْلَعْ نَعْلَيْكَۖ إِنَّكَ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى
میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے1 تو وادی مقدس طویٰ میں ہے2
2 | عام خیال یہ ہے کہ ’’طویٰ‘‘ اس وادی کا نام تھا۔ مگر بعض مفسرین نے ’’وادی مقدس طُویٰ‘‘ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ’’وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے‘‘۔ |
1 | غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوۓ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا : خالفوا الیھود فانھم لا یصلّون فی فعالہم ولا خفا فہم، ’’یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔ کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے‘‘ (ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے،اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ (ابو داؤد) میں عمْرو بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مُسند احمد اور ابو داؤد یل ابو سعید خُدرِیؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی مسجد آۓ تو جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوۓ نماز پڑھ لے‘‘ ابو ہریرہؓ کی روایت میں حضور کے یہ الفاظ ہیں ’’اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے‘‘۔ اور حضرت ام سَلَمہؓ کی روایت میں ہے : یطھرہ مابعدہٗ، یعنی ’’ایک جگہ گندگی لگی ہو گی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمیں ہی اس کو پاک کر دے گی‘‘۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام اوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جوتا ہرحال میں زمین کی مٹی سے پاک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگرچہ سمجھا یہی گیا ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوتا۔ (اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسجد نبوی میں چٹائی تک کا فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ پڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں، وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔ |
Surah 20 : Ayat 80
يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ قَدْ أَنجَيْنَـٰكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَٲعَدْنَـٰكُمْ جَانِبَ ٱلطُّورِ ٱلْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰ
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب1 تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا2 اور تم پر من و سلویٰ اتارا3
3 | من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرہ، حاشیہ 73۔ الاعراف، حاشیہ 118۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا (خروج، باب 16۔ گنتی باب 11، آیت 7۔9۔ یشوع، باب 5، آیت 12) کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے ’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے‘‘ (باب 16۔ آیت 13۔ 15)۔ ’’اور بنی اسرائیل نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوۓ پوۓ کی طرح تھا‘‘ (آیت 31)۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے؟ ’’لوگ ادھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اسے ہانڈیوں میں ابال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ من بھی گرتا تھا‘‘ اب 11۔آیت 8۔9) یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ 40 برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گۓ تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے، بہ من ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے ان علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے 40 سال تک دشت نوردی کی تھی۔ من ان کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے من کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔ |
2 | سورہ بقرہ رکوع 6، اور سورہ اعراف رکوع 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھی کی تختیوں پر لکھے ہوۓ احکام عطا کیے گۓ۔ |
1 | یعنی طور کے مشرقی دامن میں۔ |
Surah 28 : Ayat 30
فَلَمَّآ أَتَـٰهَا نُودِىَ مِن شَـٰطِىِٕ ٱلْوَادِ ٱلْأَيْمَنِ فِى ٱلْبُقْعَةِ ٱلْمُبَـٰرَكَةِ مِنَ ٱلشَّجَرَةِ أَن يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّىٓ أَنَا ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر1 مبارک خطے میں2 ایک درخت سے پکارا گیا کہ "اے موسیٰؑ، میں ہی اللہ ہوں، سارے جہان والوں کا مالک"
2 | یعنی اُس خطے میںجونورتجلی سےروشن ہورہاتھا۔ |
1 | یعنی اُس کنارے پرجوحضرت موسٰیؑ کے داہنے ہاتھ کی طرف تھا۔ |
Surah 28 : Ayat 46
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ ٱلطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور تم طور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جار ہی ہیں) 1تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا2، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں
2 | عرب میں حضرت اسمٰعیل اورحضرت شعیب علیھماالسلام کے بعد بنی نہیں آیا تھا۔ تقریباََ دوہزار برس کی اس طویل مدت میںباہر کے انبیاء کی دعوتیں توضروروہاں پہنچیں، مثلاََ حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اورحضرت عیسٰی علیھم السلام کی دعوتیں ، مگر کسی نبی کی بعثت خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی۔ |
1 | یہ تینوں باتیں محمد ﷺ کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھیں اس وقت مکہ کے تمام سردار اورعام کفاراس بات پرپوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی طرح آپ کوغیر نبی، اورمعاذاللہ جھوٹا مدعی ثابت کردیں۔ ان کی مدد کےلیے یہود کے علماء اورعیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میںموجود تھے اورمحمد ﷺ کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھےاورآپ کی زندگی کاکوئی گوشہ آپ کی بستی اورآپ کےقبیلے کے لوگوں سے چھپا ہُوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کےثبوت کے طور پریہ تین باتیں ارشاد رفرمائی گئیں ،اس وقت مکے، اورحجاز اورپورےعرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کروہ بیہودہ بات نہ کہہ سکے جوآج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگرچہ جھوٹ گھڑنے میں وہ لوگ ان سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا دروغ بے فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جوایک لمحہ لےلیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اورعیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کرلائے ہو، کہ اس سے آنحضرت نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اورعلوم وآداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد دے تم یہ ساری تقریریں کررہے ہو، کیونکہ لائبریری تودرکنار، محمد ﷺ کے آس پاس کہیں سے لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اورکوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرے آپ کودیتے ہیں۔ پھران میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرکےآپ کودیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بےحیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھتا تھا کہ شام وفلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کرآئے تھے۔ کیونکہ ی سفر تنہانہیں ہوئے تھے مکے ہی کے تجارتی قافلے ہرسفر میں آپ کے ساتھ لگے ہوتے تھے۔اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دےدیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اورآپ کی وفات کے بعد تودوسال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان برسرپیکار ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام وفلسطین میں کسی عیسائی راہب یایہودی ربّٰی سے حضورﷺ نے کوئی مزاکرہ کیا ہوتا تورومی سلطنت رائی کاپیاڑ بناکریہ پروپیگنڈا کرنے میں زرادریغ نہ کرتی کہ محمدﷺ ، معازاللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھےاورمکے جاکر نبی بن بیٹھے۔غرض، اُس سمیں جبکہ قرآن قریش کے کفار مشرکین کےلیےپیام موت حثیت رکھتا تھا، اوراس کو کوئی مواد فراہم کرکے نہ لاسکا جس سے وہ ثابت کرسکتا کہ محمد ﷺ کےپاس وحی کے سوا ان معلومات کے حصول کا کوئی دوسراذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اسی ایک جگہ نہیں دیاہےبلکہ متعدد مقامات پرمختلف قصوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ حضڑ زکریا اورحضرت مریم کاقصہ بیان کرکے فرمایا ذٰلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذیختصموں،‘‘ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم نے وحی کےذریعہ سےتمہیں دےرہے ہیں، تم اُن لوگوں کےآس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کےلیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا اورنہ اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑرہے تھے‘‘۔(آل عمران، آیت ۴۴)۔ حضرت یوسفؑ کاقصہ بیان کرنے کےبعد فرمایا ذلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھما اذ اجمعو امرھم وھم یمکرون، ’’ یہ غیب کی خبروں میںسے ہے جوہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دےرہے ہیں، تم ان کے(یعنی یوسف کےبھائیوں کے) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پراتفاق کیا اورجب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے‘‘(یوسف آیت ۱۰۲)۔ اسی طرح حضرت نوح کامفصل قصہ بیان کرکے فرمایا تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَ، مَاکُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا،’’ یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جوہم تم پروحی کررہے ہیں تمہیں اورتمہاری قوم کواس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا‘‘ (ہود۔ آیت ۴۹)۔ اس چیز کی باربارتکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانے ہونے اورمحمد ﷺ کےرسول ہونے پرجوبڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سےایک دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس کےگزرےہوئے واقعات کی جوتفصیلات ایک اُمّی کی زبان سے بیان ہورہی ہیں ان کے علم کاکوئی ذریعہ اُس کے پاس وحی کے سوانہیں ہے۔ اوریہ چیز اُن اہم اسباب میںسے ایک تھی جن کی بناپرنبی ﷺ کےہم عمر عصر لوگ اس بات پریقین لاتے چلے چارہے تھے کہ واقعی آپ اللہ کےنبی ہیں اورآپ پروحی آتی ہے ۔ اب یہ ہرشخص خود تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کےلیےاُس ذمانے میں اس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہوگا اورانہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیاکسر اُٹھا رکھی ہوگی ۔ نیز یہ بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اگر معازاللہ اس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تواس کوغلط ثابت کرنے کےلیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کےلیے نہ ہوتا |
Surah 79 : Ayat 16
إِذْ نَادَٮٰهُ رَبُّهُۥ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى
جب اس کے رب نے اُسے طویٰ کی مقدس وادی1 میں پکارا تھا
1 | وادی مقدس طویٰ کے معنی بالعموم مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ‘‘وہ مقدس وادی جس کا نام طویٰ تھا’’۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے دو معنی اور بھی بیان کی گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ‘‘وہ وادی جو دو مرتبہ مقدس کی گئی’’، کیونکہ ایک دفعہ اس وقت مقدس کیا گیا جب پہلی مرتبہ اللہ تعالی نے وہاں حضرت موسی کو مخاطب فرمایا، اوردوسری دفعہ اسے تقدیس کا شرف اس وقت بخشا گیا جب حضرت موسی مصر سے بنی اسرائیل کونکال کراس وادی میں لائے۔ دوسرے یہ کہ ‘‘رات کے وقت وادی مقدس میں پکارا’’۔ عربی میں محاورہ ہے جاء بعد طوی، یعنی فلاں شخص میرے پاس رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد آیا |