Ayats Found (5)
Surah 4 : Ayat 113
وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُۥ لَهَمَّت طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَىْءٍۚ وَأَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُۚ وَكَانَ فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اے نبیؐ! اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالاں کہ در حقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے اور تمہارا کوئی نقصان نہ کرسکتے تھے1 اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اور اس کا فضل تم پر بہت ہے
1 | یعنی اگر وہ غلط روداد پیش کر کے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو بھی جاتے اور اپنے حق میں انصاف کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیتے تو نقصان انہی کا تھا، تمہارا کچھ بھی نہ بگڑتا۔ کیونکہ خدا کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ تم۔ جو شخص حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے حق اس کے ساتھ ہو گیا، حالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۹۷) |
Surah 17 : Ayat 87
إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَۚ إِنَّ فَضْلَهُۥ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا
یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے رب کی رحمت سے ملا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے1
1 | خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا پردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے۔ اُن سے کہا جارہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لاسکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے |
Surah 28 : Ayat 86
وَمَا كُنتَ تَرْجُوٓاْ أَن يُلْقَىٰٓ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَـٰفِرِينَ
تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے (تم پر نازل ہوئی ہے)1، پس تم کافروں کے مدد گار نہ بنو2
2 | یعنی جب اللہ نےیہ نعمت تمہیں بےمانگے عطا فرمائی ہے تواس کاحق اب تم پریہ ہےکہ تمہاری قوتیں اورمحنتیں اس کی علمبرداری پر، اس کی تبلیغ پراوراسے فروغ دینے پرصرف ہوں۔ اس میں کوتاہی کرنے کےمعنی یہ ہوں گے کہ تم نےحق کےبجائے منکرین حق کی مدد کی۔ اس کایہ مطلب نہیں ہےکہ معاذاللہ نبی ﷺ سے ایسی کسی کوتاہی کااندیشہ تھا۔ بلکہ دراصل اس طرح اللہ تعالٰی کفارکوسناتے ہوئےاپنے نبی کویہ ہدایت فرمارہے ہےکہ تم ان کےشوروغوغا اوران کی مخالفت کےباوجود اپناکام کرو اوراس کی کوئی پروانہ کرو کہ دشمنان حق اس دعوت سے اپنے قومی مفاد پرضرب لگنے کےکیا اندیشے ظاہر کرتے ہیں۔ |
1 | یہ بات محمد ﷺ کی نبوت میں پیش کی جارہی ہے۔ جس طرح موسٰٰی علیہ السلام بالکل بےخبر تھے کہ انہیں بنی بنایا جانے والا ہےاورایک عظیم الشان مشن پروہ مامور کیے جانے والے ہیں، اُن کےحاشیہءخیال میں بھی اس کاارادہ یاخواہش تودرکناراس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اورنبی بناکر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیاگیا جوان کی سابق زندگی سےکوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت ﷺ کےساتھ بھی پیش آیا ۔ مکہ کےلوگ خود جانتے تھے کہ غار حراء سے جس روزآپ نبوت کاپیغام لےکر اتر ےاُس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی تھی، آپ کےمشاغل کیاتھے، آپ کی بات چیت کیاتھی، آپ کی گفتگو کےموضوعات کیاتھے،آپ کی دلچسپیاں اورسرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت،دیانت، امانت اورپاکنازی سےلبریز ضرور تھی۔ اس میںانتہائی شرافت ءامن پسندی، پاس عہد، ادائے حقوق اورخدمت خلق کارنگ بھی غیر معمولی شان کےساتھ نمایاں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجودنہ تھی جس کی بنا پرکسی کےوہم وگمان میںبھی یہ خیال گزرسکتا ہوکہ یہ نیک بندہ کل نبوت کادعوٰی لےکر اُٹھنے والا ہے۔ آپ سےقریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں، آپ کےرشتہ داروں اورہمسایوں اوردوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے نبی بننے کی تیاری کررہے تھے۔ کسی نےاُن مضامین اورمسائل اورموضوعات کےمتعلق کبھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جوغار حراء کی اُس انقلابی ساعت کےبعد یکایک آپ کی زبان پرجاری ہونے شروع ہوگئے۔ کسی نےآپ کووہ مخصوص زبان اوروہ الفاظ اوراصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جواچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سےسننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے۔کبھی کوئی دعوت اورتحریک لےکرنہ اُٹھے تھے۔ بلکہ کبھی آپ کی کسی سرگرمی سےیہ گمان تک نہ ہوسکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل، یامذہبی اصلاح یااخلاق اصلاح کےلیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں۔ اس انقلابی ساعت سےایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظرآتی تھی جوسیدھےسادھے جائز طریقوں سےاپنی روزی کماتا ہے، اپنےبال بچوں کےساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے، مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اورشتہ داروں سےحسن سلوک کرتا ہے، اورکبھی کبھی عبادت کرنےکےلیے خلوت میں جابیٹھتا ہے۔ ایسے شخص کایکاکی ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کےساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کردینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کردینا، ایک مستقل فلسفہءحیات اورنظام فکرواخلاق وتمدّن لےکرسامنے آجانا، اتنابڑا تغیر ہےجوانسانی نفسیات کےلحاظ سے کسی بناوٹ اورتیاری اورارادی کوشش کےنتیجے میںقطََا رونما نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ ایسی ہرکوشش اورتیاری بہر حال تدریجی ارتقاء کےمراحل سےگزتی ہےاوریہ مراحل اُن لوگوں سےکبھی مخفی رہ سکتے جن کےدرمیان آدمی شب وروز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرتﷺ کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تومکہ میںسینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے، یہ شخص ایک دن کوئی بڑادعویٰ لےکراُٹھنے والا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفارمکہ نےآپ پرہرطرح کےاعتراض کیے، مگریہ اعتراض کرنے والا اُن میںسے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا پھر یہ بات کہ آپ خود نبوت کےخواہش مند، یا اس کےلیے متوقع اورمنتظر نہ تھے، بلکہ پوری بےخبری کی حالت میں اچانک آپ کواس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا، اس کاثبوت اُس واقعہ سےملتا ہے جواحادیث میں آغازوحی کی کیفیت کےمتعلق منقول ہُوا ہے۔ جبریلؑ سےپہلی ملاقات اورسورہ علق کی ابتدائی آیات کےنزول کےبعد آپ غارحرا ء سےکانپتے اورلرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ گھروالوں سے کہتے ہیں کہ ’’مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ‘‘۔ کچھ دیر کےبعد فوراََ جواب دیتی ہیں ’’ہرگز نہیں۔ آپ کواللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا۔ آپ توقرابت داروں کےحق اداکرتے ہیں۔ بےکس کوسہارا دیتے ہیں۔ بےزر کی دستگیری کرتےہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتےہیں۔ ہرکارخیر میں مدد کرنے کےلیے تیارہتے ہیں‘‘۔ پھر وہ آپ کولےکر ورقہ بن نوفل کےپاس جاتی ہیں جو ان کےچچا زاد بھائی اوراہل کتاب میںسے ایک زی عل اورراستباز آدمی تھے۔ وہ آپ سےساراواقعہ سننے کےبعد تامل کہتے ہیں کہ ’’یہ جواب آپ لےپاس آیا تھا وہی ناموس (کارخاص پرمامورفرشتہ) ہے جوموسٰیؑ کےپاس آتا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اوراُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آُ کونکال دےگی ‘‘۔آپ پوچھتے ہیں’’کیایہ لوگ مجھے نکال دیں گے‘‘؟وہ جواب دیتے ہیں ’’ہاں، کوئی شخص ایسانہیں گزرا کہ وہ چیزلےکرآیاہوجوآپ لائے ہیں اورلوگ اس کےدشمن نہ ہوگئے ہوں‘‘۔ یہ پوراواقعہ اُس حالت کی تصویر پیش کردیتا ہے جوبالکل فطری طورپریکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیرمعمولی تجربہ پیش آجانے سےکسی سیدھے سادھے انسان پرطاری ہوسکتی ہے۔ اگر آنحضرت ﷺ پہلے سےنبی کی فکر میں ہوتے، اپنے یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کونبی ہوناچاہیے، اوراس انتظار میںمراقبےکرکرے اپنے زہن پرزورڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اورمیرےپاس پیغام لاتا ہے، توغارحراء والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سےاچھل پڑتے اوربڑے دم دعوےکےساتھ پہاڑ سے اتر کرسیدھے اپنی قوم کےسامنے پہنچتے اوراپنی نبوت کااعلان کردیتے ۔ لیکن اس کےبرعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جوکچھ دیکھا تھا اس پرششدررہ جاتےہیں کانپتے اورلرزتے ہوئےگھر پہنچتے ہیں، لحاف اوڑھ کرلیٹ جاتےہیں، ذرادل ٹھیرتا ہےتوبیوی کوچپکے سےبتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میںمجھ پریہ حادثہ گزراہے، معلوم نہین کیاہونےوالا ہے، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی یہ کیفیت نبوت کےکسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے۔ پھر بیوی سے بڑھ کرشوہر کی زندگی، اس کےحالات اوراس کےخیالات کوکون جان سکتا ہے؟ اگر ان کےتجربے میں پہلے سےیہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کےاُمیدوارہیں اورہروقت فرشتے کےآنے کاانتظار کررہے ہیں، توان کاجواب ہرگز وہ نہ ہوتا جوحضرت خدیجہؓ نےدیا۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو، جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھ وہ مل گئی، چلو،اب پیری کی دکان چمکاؤ، میںبھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔ لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میںآپ کی زندگی کا جورنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پرانہیں یہ بات سمجھنے میںایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اوربےلوث انسان کےپاس شیطان نہیں آسکتا، نہ اللہ اس کوکسی بُری آزمائش میںڈال سکتا ہے، اس نےجوکچھ دیکھا ہےوہ سراسرحقیقت ہے۔ اوریہی معاملہ ورقہ بن نوفل کابھی ہے۔ وہ کوئی باہر کےآدمی نہ تھے بلکہ حضورﷺ کی اپنی برادری کےآدمی اورقریب کےرشتے سےبرادرنسبتی تھے۔ پھر ایک دی علم عیسائی ہونے کی حثیت سےنبوت اورکتاب اوروحی کو بناوٹ اورتصنع سےمُمیز کرسکتے تھے۔ عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سےآپ کی پوری زندگی بچپن سےاُس وقت تک ان کےسامنے تھی۔ انہوں نےآپ کی زبان میں حرا کی گشت سنتے ہی فوراََ کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقینََا وہی فرشتہ ہےجوموسٰی علیہ السلام پروحی لاتا تھا۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جوحضرت موسٰیؑ کےساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے، نبوت کی فکر میںرہنا تودرکنار، اس کےحصول کاتصور تک اس کےحاشیہءخیال میں کبھی نہیں آیاہے، اوراچانک وہ پورے ہوش وحواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی چیز نےاُن کودواوردوچار کی طرح بلاادنیٰ تامل اس نتیجہ تک پینچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یاشیطانی کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اس سچے انسان نےاپنےکسی ارادے اورخواہش کےبغیر جوکچھ دیکھا ہےوہ دراصل حقیقت ہی کامشاہدہ ہے۔ یہ محمدﷺ کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہےکہ ایک حقیقت پسند مشکل ہی سے اس کاانکار کرسکتاہےاس لیے قرآن میں متعدد مقامات پراسے دلیل نبوت کی حثیت سےپیش کیاگیا ہے۔ مثلاََ سورہ ہونس میں فرمایا: قُلْ لَّوشَآءَاللہُ مَاتَلَوْتُھُ عَلَیْکَمْ وَّ لَآ اَدْرٰکُمْ بِھٖ فَقَدْ لَبِثْتُٖ فِیْکُمْ عُمُرََا مِّنْ قَبْلِھٖ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ؟ (آیت۱۶) اےنبی ﷺ سے کہو کہ اگر اللہ نےیہ نہ چاہا ہوتا تومیں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کہ خبر تک وہ تم کونہ دیتا۔آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزارچکا ہوں، کیاتم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟اورسورہ شوریٰ میں فرمایا: مَاکُنْتَ تَدْرز،یْ مَاالِکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰھُ نُوْرََا نَّھدِیْ بِھٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا۔ (آیت ۵۲) اےنبی، تم توجانتے نہ تھے کہ کتاب کیاہوتی ہےاورایمان کیا ہوتا ہے، مگرہم نے وحی کوایک نور بنادیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میںسے جس کی چاہتے ہیں۔ مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتمہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۱۔ جلددسوم،عنکبوت حواشی ۸۸ تا ۹۲ جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۸۴۔ |
Surah 48 : Ayat 1
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی1
1 | صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسیکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوۓ اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔ قسم ہےاس ذات کیجس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گۓ، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دیتے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گۓ جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گۓ جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آۓ تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فری الواقع اسلام کی فتح کا آغار صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر) |
Surah 48 : Ayat 2
لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے1 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے2 اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے3
3 | اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں |
2 | نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جاۓ کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسقو کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلاۓ کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جاۓ جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی |
1 | جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جاۓ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوۓ اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ دراز کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔ تاہم چونکہ روۓ سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوۓ دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد) |