Ayats Found (1)
Surah 28 : Ayat 29
۞ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى ٱلْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِۦٓ ءَانَسَ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ ٱمْكُثُوٓاْ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىٓ ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی1 اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی2 اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"
2 | اس سفرکارخ طُورکی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ اپنے اہل وعیال کو لےکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طوراُس راستے پرہے جومدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ غالباََ حضرت موسٰیؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزرچکے ہیں۔ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کےزمانے میں وہ مصر سےنکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کےساتھ وہاں چلاجاؤں اوراپنےخاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں توشاید کسی کومیرا بتہ بھی نہ چلے۔ بائیبل کابیان یہاں واقعات کی ترتیب میںقرآن کے بیاں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے۔ کہ حضرت موسٰیؑ اپنے سسر کی بکریاں چراتے ہوئے’’ بیابان کے پرلی طرف سےخدا کے پہاڑ حورب کےنزدیک‘‘ آنکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اورانہیں رسالت کے منصب پرمامور کرکے مصر کاحکم دیا۔ پھر وہ اپنے سسر کے پاس واپس آگئے اوران سے اجازت کے کر اپنے بال بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کولے کرمدین سے روانہ ہوئے اوراس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطب اورمنصب نبوت پرتقرر کامعاملہ پیش آیا بائیبل اورتلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسٰیؑ کے زمانہ قیام مدین میں فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اوراب ایک دوسرا فرعون مصر کافرمانرواتھا۔ |
1 | حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھافرماتے ہیں کہ حضرت موسٰیؑ نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہےکہ یہ بات خود نبی ﷺ سےمروی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا قضیٰ موسٰی اتم الاجلین واطیبھاعشرسنین۔ ’’ موسٰی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جوزیادہ کامل اوران کے خسر کےلیے زیادہ خوشگوار تھی، یعنی دس سال‘‘ |