Ayats Found (4)
Surah 20 : Ayat 40
إِذْ تَمْشِىٓ أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُۥۖ فَرَجَعْنَـٰكَ إِلَىٰٓ أُمِّكَ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَـٰكَ مِنَ ٱلْغَمِّ وَفَتَنَّـٰكَ فُتُونًاۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ جِئْتَ ثُمَّ عَلَىٰ قَدَرٍ يَـٰمُوسَىٰ
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ
Surah 28 : Ayat 22
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّىٓ أَن يَهْدِيَنِى سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
(مصر سے نکل کر) جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا1 تو اُس نے کہا "اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا2"
2 | یعنی ایسے راستے پرجس سے میں بخیریت مدین پینچ جاؤں۔ واضح رہے کہ اُس زمانہ میںمدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پرنہ تھی بلکہ صرف اس کے مغربی اورجنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اورمغربی سواحل ، جن پر بنی مدیان آباد تھے، مصری اثرواقتدار سے بالکل آزاد تھے۔ اسی بنا پرحضرت موسٰیؑ نے مصر سے نکلتے ہی مدین کارُخ کیاتھا، کیونکہ قریب ترین آزاد اورآباد علاقہ وہی تھا۔ لیکن وہاں جانے کےلیے انہیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا، اورمصر کی پولیس اورفوجی چوکیوں سے بچ کرنکلنا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعاکی کہ مجھے ایسے رستے پرڈال دے جس سے میں صحیح وسلامت مدین پینچ جاؤں۔ |
1 | بائیبل کابیان اس امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسٰیؑ نےمصر سےنکل کرمدین کارُخ کیا تھا۔ لیکن تلمود یہ بےسروپا قصہ بیان کرتی ہےکہ حضرت موسٰیؑ مصر سےبھاگ کر حبش چلے گئے،اور وہاں بادشاہ کےمقرب ہوگئے۔ پھراس کےمرنےپرلوگوں نےان کوبادشاہ بنالیااوراس کی بیوی سےان کی شادی کردی۔ ۴۰ سال انہوں نےوہاں حکومت کی۔ مگر اس پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی۔ ۴۰ سال گزرجانے کےبعد اس عورت نےحبش کے باشندوں سے شکایت کی کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن وشو کاتعلق رکھا ہےاورنہ کبھی حبش کےدیوتاؤں کی پرشتش کی ہے۔ اس پرامرائے سلطنت نے انہیںمعزول کرکے اوربہت سامال دےکر ملک سے باحترام رخصت کردیا۔ تب وہ حبش سے مدین پہنچے اوروہ واقعات پیش آئے جوآگے بیان ہورہے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ۶۷سال تھی۔ اس قصبےکےبےسروپاہونے کی ایک کھلی ہوئی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اُس زمانے میں اسیریا(شمالی عراق) پرحبش کی حکومت تھی، اوراسیریا والوں کی بغاوت کچلنے کےلیے حضرت موسٰیؑ نے بھی اوران کے پیش رو بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں۔ اب جوشخص بھی تاریخ وجغرفیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہووہ نقشے پرایک نگاہ ڈال کردیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پرحبش کاتسلط اورحبشی فوج کاحملہ یاتو اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ مصر اورفلسطین وشام پراس قبضہ ہوتا، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگین ہوتا، پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردست ہوتا کہ وہ بحر ہند اورخلیج فارس کو عبور کرکے عراق فتح کرلیتا۔ تاریخ اس زکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کوان ممالک پرتسلط حاصل ہُوا ہویا ان کی بحری طاقت اتنی زبردست رہی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرئیل کاعلم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اورقرآن ان کی غلطیوں کی تصحیح کرکےصحیح واقعات کیس منقح صورت میں پیش کرتا ہے۔ لیکن عیسائی مستشرقین کویہ کہتےذرا شرم نہیں آتی کہ قرآن نے یہ قصے بنی اسرئیل سے نقل کرلیے ہیں۔ |
Surah 28 : Ayat 23
وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ ٱلنَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ ٱمْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَاۖ قَالَتَا لَا نَسْقِى حَتَّىٰ يُصْدِرَ ٱلرِّعَآءُۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ
اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا1 تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں موسیٰؑ نے اِن عورتوں سے پوچھا "تمہیں کیا پریشانی ہے؟" انہوں نے کہا "ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نکال کر نہ لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں"2
2 | یعنی ہم عورتیں ہیں، ان چرواہوں سے مزاحمت اورکشمکش کرکے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میںنہیں ہے۔ والد ہمارے اس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اُٹھانہیں سکتے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اورجب تک سب چرواہے اپنے جانوروں کوپانی پلا کرچلے نہیں جانتے، ہم کو مجبوراََ انتظارکرنا پڑتاہے۔ اس سارے مضمون کوان خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کردیا ، جس سے ان کی حیاداری کااندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرناچاہتی تھیں، مگر یہ بھی پشند نہ کرتی تھیں کہ یہ اجنبی ہمارے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کرلے اوراپنے ذہن میںیہ خیال کرے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے مرد گھر بیٹھے رہے اوراپنی عورتوں کواس کام کےلیے باہر بھیج دیا۔ ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے لیکن قرآن مجید میں اشارۃ دنیایۃ بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہےجس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ حضرت شعیب ہی تھے۔ حالانکہ شعیب علیہ السلام کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے۔ اگر ان خواتین کے والد ہی ہوتے توکوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کردی جاتی۔بلاشبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے، لیکن علامہ ابن جریراورابن کثیر دونوں اس پرمتفق ہیں کہ ان میںسے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لیے ابن عباس، حسن بصری، ابوعبیدہ اورسعید بن جبیر جیسے اکابر مفسرین نےبنی اسرئیل کی روایات پراعتماد کرکے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی ﷺ سے اسن شعیب کی تصریح منقول ہوتی تویہ حضرات کوئی دوسرا نام نہ لےسکتےتھے۔ بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اوردوسری جگہ یتروبیان گیاگیا ہےاوربتایا گیا ہے کہ وہ مدین کے کاہن تھے(خروج باب ۲۔۱۶۔۔ باب ۱۔۳۔ باب ۵:۱۸۱۸)۔ تلمودی لٹریچر میں رعویل، یتھرواورحوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علمائے یہود کاخیال ہے کہ یتھروہزا کسی لنسی کاہم معنی لقب تھا اوراصل نام رعوایل یا حوباب تھا۔ اسی طرح لفط کاہن (Kohen Midian) کی تشریح میں علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کوپروہت(Priest) کاہم معنی بتاتے ہیں اوربعض رئیس یاامیر(Prince)کا۔ تلمود میں ان کے جوحالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسٰیؑ کہ پیدائش سے پہلے فوعون کے ہاں ان کی آمدورفت اوروہ ان کے علم اوراصابت رائے پراعتماد رکھتا تھا۔ مگر جب بنی اسرئیل کااستیصال کارنے کےلیے مصر کی شاہی کونسل میںمشورےہونے لگے اوران کے لڑکوں کوپیدا ہوتے ہی قتل کردینے کافیصلہ کیاگیا تو انہوں نے فوعون کواس غلط کام سےروکنے کی کوشش کی، اسے اس ظلم کے بُرے نتائج سے ڈرایا اوررائے دی کہ اگر ان لوگوں کاوجود آپ کےلیے ناقابل برداشت ہے تو انہیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے۔اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین ہی میں اقامت گُزیں ہوگئےتھے۔ ان کے مزہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرح وہ بھی دین ابرہیمی کے پیرو تھے۔ کیونکہ جس طرح حضرت موسٰیاسحق بن ابرہیم (علیہم السلام) کی اولاد تھے ایس طرح وہ مدیان بن ابرہیم کی اولاد میںسے تھے۔ یہی تعلق غالباََ اس کاموجب ہواہوگا کہ انہوں نے فرعون کو بنی اسرئیل پرظلم کرنے سے روکا اوراس کی ناراضی مول لی۔ مفسر نیسا بوری نے حضرت حسن بصری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلما قبل الدین من شعیب (وہ ایک مسلمان آدمی تھے۔ حضرت شعیب ؑ کادین انہوں نے قبول کرلیاتھا)۔ تلمود میںبیان کیاگیاہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کوعلانیہ حماقت قراردیتے تھے،اس وجہ سے اہل مدین ان کے مخالف ہوگئے تھے۔ |
1 | یہ مقام جہاں حضرت موسٰیؑ پینچےتھے، عربی روایات کے مطابق خلیج عقبہ کے غربی ساحل پرمقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا۔ آج کل اسے البدع کہتے ہیں اوروہاں ایک چھوٹا ساقصبہ آباد ہے۔ میں نے دسمبر ۱۹۵۹ میں تبوک سے عقبہ جاتے ہوئے اس جگہ کودیکھا ہے۔ مقامی باشندوں نےمجھے بتایا کہ ہم باپ دادا سے یہی سنتے چلےآئے ہیں کہ مدین اسی جگہ واقع تھا۔ یوسیفوس کےلےکر برٹن قدیم وجدید سیاحوں اورجغرافیہ نویسوں نے بھی بالعموم مدین کی جائےوقوع یہی بنائی ہے۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پروہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یامغارات شعیب کہاجاتا ہے۔ اس جگہ ثمود طرز کی کچھ عمارات موجود ہیں۔ اوراس سے تقریباََ میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پرکچھ قدیم کھنڈر ہیں جن میںدواندھے کنویں ہم نے دیکھے۔ مقامی باشندوں نے ہمیں بتایا کہ یقین کے ساتھ توہم نہیں کہہ سکتے، لیکن ہمارے ہاں روایات یہی ہیں کہ ان دونوں میںسے ایک کنواں وہ تھا جس پرحضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریون کوپانی پلایا ہےیہی بات ابوالفداء(متوفی ۷۳۲) نے تقویم البلدان میں اوریا قوت نے مُعجم البلدان میں ابو زید انصاری (متوفی ۲۱۶ھ) کے حوالے سے لکھی ہے کہ اس علاقے کے باشندے اسی مقام پرحضرت موسٰیؑ کے اس کنویں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے وہاں کے لوگوں میں متوارث چلی آرہی ہےاوراس بنا پراعتماد کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس مقام کاذکر گیاگیا ہے وہ یہی ہے۔ مقابل کے صفحہ پراس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔ |
Surah 28 : Ayat 45
وَلَـٰكِنَّآ أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ ٱلْعُمُرُۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِنَا وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک) ہم بہت سی نسلیں اٹھا چکے ہیں اور ان پر بہت زمانہ گزر چکا ہے1 تم اہلِ مَدیَن کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ اُن کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے2، مگر (اُس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں
2 | یعنی جب حضرت موسٰیؑ مدین پہنچے، اورجوکچھ وہاں ان کے ساتھ پیش آیا اوردس سال گزار کر جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے، اس وقت تمہارا کہیں پتہ بھی نہ تھا۔ تم اس وقت مدین کی بستیوں میںوہ کام نہیں کررہے تھے جوآج مکہ کی گلیوں میں کررہے ہو۔ اُن واقعات کاذکر تم کچھ اس بنا پر نہیں کررہے ہوکہ یہ تمہارا عینی مشاہدہ ہے، بلکہ یہ علم بھی تم کوہماری وحی کےذریعہ سے ہی حاصل ہُوا ہے۔ |
1 | یعنی تمہارےپاس ان معلومات کے حصول کا براہ راست کوئی ذریعہ نہیںتھا۔ آج جوتم ان واقعات کودوہزار برس سے زیادہ مدّت گزر جانے کے بعد اس طرح بیان کررہےہوکہ گویا یہ سب تمہار آنکھوں دیکھا حال ہے، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کےذریعہ سےتم کویہ معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ |