Ayats Found (1)
Surah 24 : Ayat 63
لَّا تَجْعَلُواْ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًاۚ قَدْ يَعْلَمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًاۚ فَلْيَحْذَرِ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِۦٓ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو1 اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں2 رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں3 یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے
3 | امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ’’ظالموں کا تسلط‘‘ لیا ہے۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے۔ ہر حال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں ، اخلاقی زوال ، نظام جماعت کی پراگندگی ، داخلی انتشار ، سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ |
2 | یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں ، کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں |
1 | اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بُلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلا نا یا دُعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی۔ ن مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں : اول یہ کہ ’’ رسول کے بُلانے کو عام آدمیوں کیں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو‘‘ یعنی رسول کا بلاوا غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بلاۓ اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے ، لیکن رسول بلاۓ اور تم نہ جاؤ ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے۔ دوم یہ کہ ’’ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو‘‘ وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دین تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں۔ سوم یہ کہ ’’ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ‘‘۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکارا کرو۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی۔ یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں ، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے |