Ayats Found (10)
Surah 7 : Ayat 123
قَالَ فِرْعَوْنُ ءَامَنتُم بِهِۦ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْۖ إِنَّ هَـٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِى ٱلْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُواْ مِنْهَآ أَهْلَهَاۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
فرعون نے کہا "تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ ساز ش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو اچھا توا س کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے
Surah 10 : Ayat 87
وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَٱجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو"
Surah 28 : Ayat 15
وَدَخَلَ ٱلْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِۦ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِۦۖ فَٱسْتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِى مِن شِيعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِى مِنْ عَدُوِّهِۦ فَوَكَزَهُۥ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِۖ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَـٰنِۖ إِنَّهُۥ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
(ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت میں داخل ہوا جبکہ اہلِ شہر غفلت میں تھے1 وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دُوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا موسیٰؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا2 اور اس کا کام تمام کر دیا (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا "یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کن ہے3"
3 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھا کرجب مصری گرا ہوگا اوراس نے دم توڑدیا ہوگا توکیسی سخت ندامت اورگھبراہٹ کی حالت میںیہ الفاظ حضرت موسٰیؑ کی زبان سے نکلے ہوں گے۔ ان کاکوئی ارادہ قتل کا نہ تھا۔ نہ قتل کے کے گھونسا ماراجاتا ہے۔ نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہےکہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلاچنگا آدمی پران چھوڑدےگا۔ اس بنا پرحضرت موسٰی ؑ نے فرمایا کہ شیطان کاکوئی شریرانہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ایک بڑا فساد کھڑا کرنےکےلیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تاکہ ایک اسرئیلی کی حمایت میں ایک قبطی کومارڈالنے کاالزام مجھ پر عائد ہواورصرف میرےہی خلاف نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خلاف مصر میں ایک طوفان عظیم اُٹھ کھڑا ہو۔ اس معاملہ میں بائیبل کابیان قرآن سے مختلف ہے۔ وہ حضرت موسٰیؑ کوقتل عمد کامجرم ٹھیراتی ہے۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اوراسرئیلی کولڑتےدیکھ کرحضرت موسٰیؑ نے’’اِدھر اُدھر نگاہ کی اورجب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تواس مصری کو جان سےمار کر اسےریت میں چھپادیا‘‘(خروج ۱۲:۲)۔ یہی بات تلمود میںبھی بیان کی گئی ہے۔ اب یہ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرئیل اپنے اکابر کی سیرتوں کوخود کس طرح داغدار کرتے ہیں اورقرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم وداناآدمی ، جسے آگے چل کرایک اولوالعزم پیغمبر ہوناتھااورجسے انسان کوعدل وانصاف کاایک عظیم الشان قانون دیناتھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہوسکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کوکڑتے دیکھ کرآپے سےباہرہوجائے اورجان بوجھ کراسے قتل کرڈالے۔ ظاہر ہے کہ اسرئیلی کومصری کے پنجےسے چھڑانے کےلیے اسے قتل کردینا توروانہ ہوسکتا تھا |
2 | اصل میںلفظ ’’ وکز‘‘ استعمال ہُوا ہے جس کے معنی تھپڑ مارنے کےبھی ہیں اورگھونسامارنے کےبھی۔ ہم نےاس خیال کہ تھپڑ سے موت واقع ہوجاناگھونسے کی بہ نسبت بعید ترہے، اس کاترجمہ گھونسا مارناکیاہے۔ |
1 | ہوسکتا ہے کہ صبح سویرے کاوقت ہو، یاگرمی میںدوپہر کا، یاسردیوں میں رات کا۔ بہرحال مرادیہ ہے کہ جب سڑکیںسنسان تھیں اورشہر میںسناٹا چھایا ہواتھا۔ ’’شہرمیںداخل ہُوا‘‘، ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالسلطنت کے شاہی محلات عام آبادی سے باہرواقع تھے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام چونکہ شاہی محل میںرہتے تھے اس لیے’’شہرمیںنکلے‘‘شہر میں نکلے‘‘ کہنے کے بجائے’’شہرمیںداخل ہوئے‘‘ فرمایاگیاہے۔ |
Surah 28 : Ayat 20
وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَا ٱلْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّ ٱلْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَٱخْرُجْ إِنِّى لَكَ مِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ
اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا1 اور بولا "موسیٰؑ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں"
1 | یعنی اس دوسرے جھگڑے میں جب قتل کاراز فاش ہوگیا اوراس مصری نے جاکرمخبری کردی تب یہ واقعہ پیش آیا۔ |
Surah 28 : Ayat 28
قَالَ ذَٲلِكَ بَيْنِى وَبَيْنَكَۖ أَيَّمَا ٱلْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَٲنَ عَلَىَّۖ وَٱللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسیٰ نے جواب دیا "یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پُوری کر دوں اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے1"
1 | بعض لوگوں نےحضرت موسٰیؑ اورلڑکی کے والد کی اس گفتگو کونکاح کاایحاب وقبول سمجھ لیاہے اوریہ بحث چھیڑدی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کامہر قرارپاسکتی ہے؟ اورکیا عقد نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ آیات زیر بحث کی عبارت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ یہ عقد نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھ جونکاح سے پہلے تجویز نکاح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے۔ آخر یہ نکاح کاایجاب وقبول کیسے ہوسکتا ہےجبکہ یہ تعیُّن بھی اس میں نہ کیاگیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میںسے کونسی نکاح میں دی جارہی ہے۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھا کہ لڑکی کے باپ نے کہا میںاپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کردینے کےلیے تیار ہوں، بشرطیکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سام میرے ہاں رہ کرمیرے گھر کا کام کاج میںمیرا ہاتھ بٹاؤ گے۔ کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے جومیری جائداد کا انتظام سنبھالے، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبوراََ باہرنکالتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ داماد میردست وبازوبن کررہے، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کےلیےتیارہواورشادی کے بعد ہی بیوی کولے کرچلے جانے کاارادہ نہ رکھتے ہو، تومیں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سےکردوں گا۔حضرت موسٰیؑ اس وقت خود ایک ٹھکانے کے طالب تھے۔ انہوں نےاس تجویز کوقبول کرلیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہد کی صورت تھی جونکاح سے پہلے فریقین میںطے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اصل عقد نکاح قاعدے کے مطابق ہُوا ہوگااوراس میں مہر بھی باندھاگیا ہوگا۔ اُس عقد میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ |
Surah 43 : Ayat 51
وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِى قَوْمِهِۦ قَالَ يَـٰقَوْمِ أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَـٰذِهِ ٱلْأَنْهَـٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا1، "لوگو، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟
2 | منادی کا یہ مضمون ہی صاف بتا رہا ہے کہ ہز میجسٹی کے پاؤں تلے زمین نکلی جا رہی تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پے در پے معجزات نے ملک کے عوام کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں پر سے متزلزل کر دیا تھا ۔ اور فراعنہ کا باندھا ہوا وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا جس کے ذریعہ سے خداؤں کا اوتار بن کر یہ خاندان مصر اپنی خداوندی چلا رہا تھا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر فرعون چیخ اٹھا کہ کم بختو، تمہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا کہ اس ملک میں بادشاہی کس کی ہے اور دریاۓ نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں جن پر تمہاری ساری معیشت کا انحصار ہے ، کس کے حکم سے جاری ہیں؟ یہ ترقیات (Developments) کے کام تو میرے اور میرے خاندان کے لیے ہوۓ ہیں، اور تم گرویدہ ہو رہے ہو اس فقیر کے |
1 | غالباً پوری قوم میں پکارنے کی عملی صورت یہ رہی ہو گی کہ فرعون نے جو بات اپنے دربار میں سلطنت کے اعیان و اکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مخاطب کر کے کہی تھی، اسی کو منادیوں کے ذریعہ سے پورے ملک کے شہروں اور قریوں میں نشر کرایا گیا ہو گا۔ بے چارے کے پاس اس زمانہ میں یہ ذرائع نہ تھے کہ خوشامدی پریس ، خانہ ساز خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری ریڈیو سے منادی کراتا |
Surah 12 : Ayat 21
وَقَالَ ٱلَّذِى ٱشْتَرَٮٰهُ مِن مِّصْرَ لِٱمْرَأَتِهِۦٓ أَكْرِمِى مَثْوَٮٰهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ أَوْ نَتَّخِذَهُۥ وَلَدًاۚ وَكَذَٲلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِى ٱلْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُۥ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِۚ وَٱللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰٓ أَمْرِهِۦ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
مصر کے جس شخص نے اسے خرید1ا اس نے اپنی بیوی2 سے کہا 3"اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں" اس طرح ہم نے یوسفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا4 اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
4 | حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانواوہٴ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختا کال بنادیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگاا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہوجائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے |
3 | تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شائد تم اسے کہیں سے چُرا لائے ہو۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاوٴ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنادیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ”اس نے اپنا سب کچھ یوسف ؑ کے ہاتھ میں چھوڑدیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھالیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا“۔ (پیدائش ۳۹ - ٦) |
2 | تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا (Zelicha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے |
1 | بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف ؑ کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحبِ منصب تھا، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلواداروں (باڈی گارڈ)کا افسر تھا، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا |
Surah 12 : Ayat 30
۞ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِى ٱلْمَدِينَةِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ تُرَٲوِدُ فَتَـٰهَا عَن نَّفْسِهِۦۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّاۖ إِنَّا لَنَرَٮٰهَا فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ "عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے"
Surah 12 : Ayat 82
وَسْــَٔلِ ٱلْقَرْيَةَ ٱلَّتِى كُنَّا فِيهَا وَٱلْعِيرَ ٱلَّتِىٓ أَقْبَلْنَا فِيهَاۖ وَإِنَّا لَصَـٰدِقُونَ
آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں ہم تھے اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں"
Surah 12 : Ayat 99
فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَىٰ يُوسُفَ ءَاوَىٰٓ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ٱدْخُلُواْ مِصْرَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کنبے والوں سے) کہا "چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے"