Ayats Found (5)
Surah 6 : Ayat 34
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَىٰ مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ حَتَّىٰٓ أَتَـٰهُمْ نَصْرُنَاۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِ ٱللَّهِۚ وَلَقَدْ جَآءَكَ مِن نَّبَإِىْ ٱلْمُرْسَلِينَ
تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے1، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں
1 | یعنی اللہ نے حق اور باطل کی کش مکش کے لیے جو قانون بنا دیا ہے اسے تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حق پرستوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک طویل مدّت تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں۔ اپنے صبر کا، اپنی راستبازی کا ، اپنے ایثار اور اپنی فداکاری کا ، اپنے ایمان کی پختگی اور اپنے توکّل علی اللہ کا امتحان دیں۔ مصائب اور مشکلات کے دَور سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پرورش کرریں جو صرف اِسی دشوار گزار گھاٹی میں پرورش پا سکتی ہیں۔ اور ابتداءً خالص اخلاقِ فاضلہ و سیرتِ صالحہ کے ہتھیاروں سے جاہلیّت پر فتح حاصل کر کے دکھائیں۔ اس طرح جب وہ اپنا اصلح ہونا ثابت کر دیں گے تب اللہ کی نُصرت ٹھیک اپنے وقت پر ان کی دستگیری کے لیے آپہنچے گی۔ وقت سے پہلے وہ کسی کے لائے نہیں آسکتی |
Surah 6 : Ayat 115
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاًۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِۦۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 10 : Ayat 64
لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْأَخِرَةِۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَـٰتِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے
Surah 18 : Ayat 27
وَٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِۦ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا
اے نبیؐ1! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے2
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالٰی آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بات مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو : وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰ یٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْبَدِّلْہُ۔ ’’جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ |
1 | اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے |
Surah 50 : Ayat 29
مَا يُبَدَّلُ ٱلْقَوْلُ لَدَىَّ وَمَآ أَنَا۟ بِظَلَّـٰمٍ لِّلْعَبِيدِ
میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی 1اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں2"
2 | اصل میں لفظ ظَلَّام استعمال ہوا ہے جس کے معنی بہت بڑے ظالم کے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے بندوں کے حق میں ظالم تو ہوں مگر بہت بڑا ظالم نہیں ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں خالق اور رب ہو کر اپنی ہی پروردہ مخلوق پر ظلم کروں تو بہت بڑا ظالم ہوں گا۔ اس لیے میں سے سے کوئی ظلم بھی اپنے بندوں پر نہیں کرتا۔ یہ سزا جو میں تم کو دے رہا ہوں یہ ٹھیک ٹھیک وہی سزا ہے جس کا مستحق تم نے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تمہارے استحقاق سے رتّی بھر بھی زیادہ سزا تمہیں نہیں دی جا رہی ہے۔ میری عدالت بے لاگ انصاف کی عدالت ہے۔ یہاں کوئی شخص کوئی ایسی سزا نہیں پا سکتا جس کا وہ فی الحقیقت مستحق نہ ہو اور جس کے لیے اس کا استحقاق بالکل یقینی شہادتوں سے ثابت نہ کر دیا گیا ہو |
1 | یعنی فیصلے بدلنے کا دستور میرے ہاں نہیں ہے۔تم کو جہنم میں پھینک دینے کا جو حکم میں دے چکا ہوں اب واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اور نہ اس قانون ہی کو بدلا جا سکتا ہے جو کا اعلام میں نے دنیا میں کر دیا تھا کہ گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے کی کیا سزا آخرت میں دی جاۓ گی |