Ayats Found (2)
Surah 25 : Ayat 38
وَعَادًا وَثَمُودَاْ وَأَصْحَـٰبَ ٱلرَّسِّ وَقُرُونَۢا بَيْنَ ذَٲلِكَ كَثِيرًا
اِسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس1 اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے
1 | اصحاب الرس کے متعلق تحقیق نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے ۔ مفسرین نے مختلف روایات بیان کی ہیں مگر ان میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے پیغمبر کو کنوئیں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا۔ رَس عربی زبان میں پرانے کنوئیں یا اندھے کو کہتے ہیں |
Surah 50 : Ayat 12
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَـٰبُ ٱلرَّسِّ وَثَمُودُ
اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور اصحاب الرس1، اور ثمود
1 | اس سے پہلے سورہ فرقان، آیت ۳8 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں، ایک نجد میں، دوسرا شمالی حجاز میں۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں |