Ayats Found (4)
Surah 15 : Ayat 78
وَإِن كَانَ أَصْحَـٰبُ ٱلْأَيْكَةِ لَظَـٰلِمِينَ
اور ایکہ1 والے ظالم تھے
1 | یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ۔ اس قوم کا نام بنی مدیان تھا۔ مَدْیَن اُن کے مرکزی شہر کو بھی کہتے تھے اور اُن کے پورے علاقے کو بھی۔ رہا اَیکہ ، تو یہ تبوک کا قدیم نام تھا۔ اس لفظ کے لغوی معنی گھنے جنگل کے ہیں۔ آج کل اَیکہ ایک پہاڑی نالے کا نام ہے جو جبل اللَّوز سے وادی اَفَل میں آکر گرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء ، حاشیہ نمبر ۱۱۵ |
Surah 26 : Ayat 176
كَذَّبَ أَصْحَـٰبُ لْــَٔيْكَةِ ٱلْمُرْسَلِينَ
اصحاب الاَیکہ نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مِدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیبؑ کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے (وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَا ھُمْ شُعَیْباً )، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْقَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ (جب کہ ان سے شعیب نے کہا)، ’’ان کے بھائی ‘‘ (اَخُوْ ھُمْ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبیہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی، یا اصحاب مدین کہلایا، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نماۓ سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ (موجودہ عقبہ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان (Dedanites)نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے۔ (یا قوت نے معجم البلد ان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی)۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ،ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی (گنتی، باب 25 آیت 1۔5، باب 31 آیت 16۔17)۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لِبَاِ مَامٍ مُّبِیْنٍ O ’’ یہ دونوں (قوم لوط اور اصحاب الایکہ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ‘‘، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْ ا بِکلِ صِرَاطٍ تُوْ عِدُوْنَ O ’’ اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو‘‘۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی۔ حضرت شعیبؑ اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 85۔ 93۔ ہود 84۔ 95۔ العنکبوت 36۔ 37 |
Surah 38 : Ayat 13
وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَـٰبُ لْــَٔيْكَةِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلْأَحْزَابُ
اور ثمود، اور قوم لوط، اور اَیکہ والے جھٹلا چکے ہیں جتھے وہ تھے
Surah 50 : Ayat 14
وَأَصْحَـٰبُ ٱلْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍۚ كُلٌّ كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
اور ایکہ والے، اور تبع کی قوم1 کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں2 ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا3، اور آخر کار میری وعید اُن پر چسپاں ہو گئی4
4 | یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ اس سے پہلے کی 6 آیتوں میں امکان آخرت کے دلائل دیےگئے تھے، اور اب ان آیات میں عرب اور اس کے گرد و پیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے، کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا۔ آخرت کے انکار اور اخلاق کے بگاڑ کا یہ لزوم، جو تاریخ کے دوران میں مسلسل نظر آ رہا ہے، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انسان فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اسے لازماً اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اسی لیے تو جب کبھی وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر دنیا میں کام کرتا ہے، اس کی پوری زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہو رہا ہے |
3 | اگر چہ ہر قوم نے صرف اس رسول کو جھٹلایا جواس کے پاس بھیجا گیا تھا، مگر چونکہ وہ اس خبر کو جھٹلا رہی تھی جو تمام رسول بالاتفاق پیش کرتے رہے ہیں، اس لیے ایک رسول کو جھٹلانا در حقیقت تمام رسولوں کو جھٹلا دینا تھا۔ علاوہ بریں ان قوموں میں سے ہر ایک نے محض اپنے ہاں آنے والے رسول ہی کی رسالت کا انکار نہ کیا تھا بلکہ وہ سرے سے یہی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ سکتا ہے، اس لیے نفس رسالت کی منکر تھیں اور ان میں سے کسی کا جرم بھی صرف ایک رسول کی تکذیب تک محدود نہ تھا |
2 | یعنی ان سے نے اپنے رسولوں کی رسالت کو بھی جھٹلایا اور ان کی دی ہوئی اس خبر کو بھی جھٹلایا کہ تم مرنے کے بعد پھر اٹھاۓ جاؤ گے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 37۔ سورہ دخان، حاشیہ 32 |