Ayats Found (7)
Surah 15 : Ayat 67
وَجَآءَ أَهْلُ ٱلْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ
اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بے تاب ہو کر لوطؑ کے گھر چڑھ آئے1
1 | اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اِس بات کے لیے کافی تھا کہ اُس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم اُمنڈ آئے او ر علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کردے۔ اُن کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اُٹھاتا ، اور نہ اُن کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی۔ حضرت لوط جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہو گا۔ تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں اُن کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہو گا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عَیلامی مسافر اُن کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ راستہ میں شام ہو گئی اور اسے مجبورًا ان کے شہر سدوم میں ٹھہرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زارِ راہ تھا۔ کسی سے اُس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اُتر گیا۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اُٹھا کر اُسے اپنے گھر لے گیا۔ رات اُسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اُس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑادیا۔ اس نے شور مچایا۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اُس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اُسے نکال باہر کیا۔ ایک مرتبہ حضرت سارہ نے حضرت لوط کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزِر نے اُسے شرم دلائی کہ تم بے کس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔ ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے اُن کے شہر میں آیا اور کسی نے اُسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گراپڑا تھا کہ حضرت لوط کی بیٹی نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوط اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اِن حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔ اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بعد معاملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اُس کو کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرِعام لوٹ لیے جاتے اور اُن کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰ تِ۔ (وہ پہلے سے بہت بُرے بُرے کام کر رہے تھے) اور اَ ءِ نَّکُمْ لَتَا ْ تُوْ نَ الرِّجَالَ و َ تَقْطَعُوْ نَ السَّبِیْلَ وَتَاْ تُوْ نَ فِیْ نَا دِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مَردوں سے خواہشِ نفس پوری کرتے ہو، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو |
Surah 21 : Ayat 74
وَلُوطًا ءَاتَيْنَـٰهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَـٰهُ مِنَ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَت تَّعْمَلُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَۗ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمَ سَوْءٍ فَـٰسِقِينَ
اور لوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا1 اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی درحقیقت وہ بڑی ہی بُری، فاسق قوم تھی
1 | ’حکم اور علم بخشنا‘‘ بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کرنے کا ہم معنی ہوتا ہے ۔ ’’حکم‘‘ سے مراد حکمت بھی ہے ، صحیح قوت فیصلہ بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی (Authority) حاصل ہونا بھی ۔ رہا ’’ علم ‘‘ تو اس سے مراد وہ علم حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا کیا گیا ہو ۔ حضرت لو ط کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف ، آیات 80 تا 84 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 83 ۔ الحجر، آیات 57 تا 76 |
Surah 25 : Ayat 40
وَلَقَدْ أَتَوْاْ عَلَى ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِىٓ أُمْطِرَتْ مَطَرَ ٱلسَّوْءِۚ أَفَلَمْ يَكُونُواْ يَرَوْنَهَاۚ بَلْ كَانُواْ لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی 1کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے2
2 | یعنی چونکہ یہ آخرت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان آثار قدیمہ کا مشاہدہ انہوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ایک تماشا دیکھتا ہے ، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے ۔ دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے |
1 | یعنی قوم لوط کی بستی۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے جس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہ۔ اہل حجاز کے قافلے فلسطین و شام جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرتے تھے اور نہ صرف تباہی کے آثار دیکھتے تھے بلکہ آس پاس کے باشندوں سے قوم لوط کی عبرت ناک داستانیں بھی سنتے رہتے تھے |
Surah 27 : Ayat 56
۞ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِۦٓ إِلَّآ أَن قَالُوٓاْ أَخْرِجُوٓاْ ءَالَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
مگر اُس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا "نکال دو لوطؑ کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں"
Surah 29 : Ayat 31
وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُوٓاْ إِنَّا مُهْلِكُوٓاْ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُواْ ظَـٰلِمِينَ
اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے1 تو انہوں نے اُس سے کہا 2"ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں"
2 | ’’اِس بستی‘‘کااشارہ قومِ لوؑط کےعلاقے کی طرف ہے۔حضرت ابراہیمؑ اس وقت فلسطین کےشہرحَبْرون(موجودہ الخلیل)میں رہتےتھے۔اس شہرکےجنوب مشرق میں چند میل کےفاصلے پربحیرہ مردار(Dead Sea)کاوہ حصّہ واقع ہےجہاں پہلےقومِ لوط آباد تھی اوراب جس پربحیرہ کاپانی پھیلاہُواہے۔یہ علاقہ نشیب میں واقع ہےاورحبرون کی بلندپہاڑیوں پرسےصاف نظرآتاہے۔اسی لیےفرشتوں نےاس کی طرف اشارہ کرکےحضرت ابراہیمؑ سےعرض کیاکہ’’ہم اِس بستی کوہلاک کرنے والے ہیں‘‘۔(ملاحظہ ہوسورہٴشعراء حاشیہ ۱۱۴)۔ |
1 | سورہٴ ہود اورسورہٴ حجِرمیں اس کی تفصیل یہ بیان ہوئی ہےکہ جوفرشتےقوم لُوطؑ پرعذاب نازل کرنے کےلیےبھیجے گئےتھےوہ پہلےحضرت ابراہیمؑ کےپاس حاضرہوئےاورانہوں نے آنجناب کوحضرت اسحاقؑ کی اوران کےبعد حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بشارت دی،پھریہ بتایاکہ ہمیں قوم لُوط کوتباہ کرنے کےلیےبھیجا گیاہے۔ |
Surah 29 : Ayat 34
إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰٓ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اُس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں"
Surah 53 : Ayat 53
وَٱلْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ
اور اوندھی گرنے والی بستیوں کو اٹھا پھینکا