Ayats Found (2)
Surah 53 : Ayat 5
عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ
اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی1 ہے
1 | یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے ، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے ۔’’زبردست قوت والے ‘‘ سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہؓ حضرت ابو ہریرہؓ، قتادہ، مجاہد، اور ربیع بن انس جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسرے تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے ۔ سورۃ تکویر میں اللہ تعلیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہۂ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ، ذِیْقُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ،مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ،وَلَقَدْرَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِo (آیت 19۔23)۔ ’’در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے ، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے ، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے ۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے ، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے ‘‘۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کر دیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضورؐ کے قلب پر نازل کی گئی تھی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّ الِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہٗ نَزَّلَہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ۔ ان تمام آیات کو اگر سورہ نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جاۓ تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گئے آ رہی ہے ۔ اس مقام پر بعض حضرات جبریل امین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضورؐ شاگرد، اور اس سے حضورؐ پر جبریل کی فضیلت لازم آۓ گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضورؐ کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آۓ، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطہ تعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے ۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں۔ یہ قصہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے |
Surah 53 : Ayat 18
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ ءَايَـٰتِ رَبِّهِ ٱلْكُبْرَىٰٓ
اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں1
1 | یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا۔ اور چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملا لات (ملاقات) بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کر دی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ، ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ‘‘ (المائدہ:143)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کر دیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کر دیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضورؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوۓ سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ ’’ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ (لِنُرِیَہٗ مِنْ ایَٰاتِنَا)، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں’’(لَقَدْرَایٰ مِنْ ایٰٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ)۔ ان وجوہ سے بظاہر اس بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا جبریل علیہ السلام کو؟ لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم ترتیب وار ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو اس سلسلے میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہوئی ہیں۔ (1)۔ حضرت عائشہؓ کی روایات: بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا، ’’ اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟’’ انہوں نے جواب دیا ’’ تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گۓ۔ تم یہ کیسے بھول گۓ کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ ‘‘ (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہؓ نے یہ فرمائی کہ ) ’’ جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے ‘‘۔ پھر حضرت عائشہؓ نے یہ آیتیں پڑھیں: لا تُدْرِکُوْالْاَبْصَا رُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور مَا کَانَ لَبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّاوَحْیاً اَوْمِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَرَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بَاِذْنِہٖ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا’’ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا‘‘ اس حدیث کا ایک حصہ بخاری، کتاب التوحید، باب 4 میں بھی ہے ۔ اور کتاب بدءالخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہو گا ثُمَّ دَنیٰ فَتَدَلّیٰ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ؟ اس پر انہوں نے فرمایا’’ اس سے مراد جبریلؑ ہیں۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آۓ اور سارا افق ان سے بھر گیا۔‘‘ مُسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہؓ سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے ‘‘۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا، ام المومنین جلدی نہ فرمایۓ۔ کیا للہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ با لْاُ فُقِ الْمْبِیْنِ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃًاُخْریٰ؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا۔ حضور نے فرمایا انماھو جبریل علیہ السلام،لم ارہٗ علیٰ سورتہ التی خلق علیھا غیر ھا تین المرتین، رایتہٗ منھبطامن السمآء سادّا عظم خلقہ مابین السماء والا رض۔‘‘وہ تو جبریل علیہ السلام تھے ۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے ، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوۓ دیکھا، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی‘‘۔ ابن مَرْدُوْیہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں : ’’ حضرت عائشہؓ نے فرمایا : ’’ سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضور نے جواب دیا نہیں، میں نے تو جبریلؑ کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا‘‘۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات: بخاری، کتاب التفیسر، مسلم کتاب الایمان اور ترمذی ابواب التفسیر میں زِرّ بن حُبَیش کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ۔ مسلم کی دوسری روایات میں مَا کَذَبَ الْفُؤَ ا دُ مَا رَایٰ اور لَقَدْرَایٰ مِنْ ایَٰاتِرَبِّہَالْکُبْریٰ کی بھی یہی تفسیر زرین حُبیش نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے ۔ مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر زرّ بن حبیش کے علاوہ عبد الرحمٰن بن یزید اور ابووائل کے واسطہ سے بھی منقول ہوئی ہے اور مزید برآں مسند احمد میں زِرّ بن حبیش کی دو روایتیں اور نقل ہوئی ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ، عِنْدَ سِدْ رَۃِ الْمُنْتَہیٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت جبریل عند سدرۃالمنتہیٰ علیہ ستمائۃ جناح۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے جبریلؑ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو بازو تھے ’’۔ اسی مضمون کی روایت امام احمدؒ نے شقیق بن سلَمہ سے بھی نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زبان سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود یہ فرمایا تھا کہ میں نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا۔ (3)۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے عطاء بن ابی رباح نے آیت لَقَدْ رَاٰہُ نَزْ لَۃً اُخریٰ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رایٰ جبریل علیہ السلام۔’’ حضورؐ نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا‘‘۔ (مسل، کتاب الایمان)۔ (4) حضرت ابو صر غفاری سے عبداللہ بن شقیق کی دو روایتیں امام مسلم نے کتاب الایمان میں نقل کی ہیں۔ ایک روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضورؐ نے جواب دیا : نورٌ اَنّیٰ اراہ۔ اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپؐ نے یہ دیا کہ رأیتُ نوراً۔ حضورؐ کے پہلے ارشاد کا مطلب ابن القیم نے زادالمعاد میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میرے اور رؤیت رب کے درمیان نور حائل تھا ‘‘۔ اور دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا‘‘۔ نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوذرؓ کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا، آنکھوں سے نہیں دیکھا ‘‘۔ (5) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے امام مسلم کتاب الایمان میں یہ روایت لاۓ ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا ما انتھیٰ الیہ بصر من خلقہ۔’’اللہ تعالیٰ تک س کی مخلوق میں سے کسی کی نگاہ نہیں پہنچی‘‘۔ (6) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات: مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مَا کَذَبَ الْفُؤادُمَا رأی، وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْ لَۃً اُخْریٰ کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔ یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے ۔ ابن مردُویہ نے عطاء بن ابی رَباح کے حوالہ سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا تھا۔ نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس نے فرمایا اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسیٰ والرؤیۃُ المحمد؟۔’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے سر فراز کیا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رؤیت کا شرف بخشا‘‘۔ حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا’’ اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مرتبہ اس کو دیکھا‘‘۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہؓ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا ’’ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گۓ‘‘۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہؓ کی روایات میں نقل کر آۓ ہیں۔ ترمذی ہی میں دوسری روایات جو ابن عباسؓ سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ دوسری میں فرماتے ہیں دو مرتبہ دیکھا تھا۔ اور تیسری میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ آپ نے اللہ کو دل سے دیکھا تھا۔ مسند احمد میں ابن عباس کی ایک روایت یہ ہے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ربی تبارک و تعالیٰ۔ ’’میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا‘‘۔ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال اتانی ربی اللیلۃ فی احسن صورۃ، احسبہ یعنی فی النوم۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آج رات میرا تب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔میں سمجھتا ہوں کہ حضورؐ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا’’۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا، ایک مرتبہ آنکھوں سے اور دوسرے مرتبہ دل سے ۔ (7)۔ محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بعض صحابہ نہ پوچھا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضور نے جواب دیا’’ میں نے اس کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ اس روایت کو ابن جریر نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ میں نے اس کو آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے ‘‘۔ (8)۔ حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت جو قصہ معراج کے سلسلے میں شریک بن عبداللہ کے حوالہ سے امام بخاریؒ نے کتاب التوحید میں نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں: حتّیٰ جَاءَسِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ و دَنَا لجبار رب العزۃ فتدلّیٰ حتّیٰ کَان منہ قاب قوسین او ادنیٰ فاوحی اللہ فیما اوحیٰ الیہ خمسین صلوٰۃ۔ یعنی ’’ جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو اللہ رب العزۃ آپ کے قریب آیا اور آپ کے اوپر معلّق ہو گیا یہاں تک کہ آپ کے اور اس کے درمیان بقدر دو کمان یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا، پھر اللہ نے آپؐ پر جو امور وحی فرماۓ ان میں سے ایک 50 نمازوں کا حکم تھا‘‘۔ لیکن علاوہ اُن اعتراضات کے جو اس روایت کی سند اور مضمون پر امام خطابی، حافظ ابن حَجر، ابن حَزم اور حافظ عبدالحق صاحبُ الجمع بین الصحیحین نے کیے ہیں، سب سے بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صریح قرآن کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید دو الگ الگ رؤیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداءًاُفُقِ اعلیٰ پر ہوئی تھی اور پھر اس میں دَنَا فَتَدَ لّیٰ فَکَا نَقَاب َ قَوْسَیْنِاَوْاَدْنیٰ کا معاملہ پیش آیا تھا، اور دوسری سدرۃالمنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی۔ لیکن یہ روایت ان دونوں رؤیتوں کو خلط ملط کر کے ایک رؤیت بنا دیتی ہے ۔اس لیے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بنا پر اس کو تو کسی طرح قبول ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اب رہیں وہ دوسری روایات جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں، تو ان میں سب سے زیادہ وزنی روایتیں وہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہؓ سے منقول ہوئی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے بالاتفاق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ان دونوں مواقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا، اور یہ روایات قرآن مجید کی تصریحات اور اشارات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔ مزید براں ان کی تائید حضورؐ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے آپ سے نقل کیے ہیں، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ کسی میں وہ دونوں رؤیتوں کو عینی کہتے ہیں، کسی میں دونوں کو قلبی قرار دیتے ہیں، کسی میں ایک کو عینی اور دوسری کو قلبی بتاتے ہیں، اور کسی میں عینی رؤیت کی صاف صاف نفی کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کوئی ارشاد نقل کر رہے ہوں۔ اور جہاں انہوں نے خود حضورؐ کا ارشاد نقل کیا ہے ، وہاں اول تو قرآن مجید کی بیان کردہ ان دونوں رؤیتوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے ، اور مزید برآں ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضورؐ نے کسی وقت بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ اس لیے حقیقت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح محمد بن کعب القرظی کی روایات بھی، اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں، لیکن ان میں ان صحابہ کرام کے ناموں کی کوئی تصریح نہیں ہے جنہوں نے حضورؐ سے یہ بات سنی۔ نیز ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ حضورؐ نے عینی رویت کی صاف صاف نفی فرما دی تھی |