Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 158
۞ إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِۖ فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَاۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
یقیناً صفا اور مَروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے1، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے 2اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے3
3 | یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا |
2 | “صَفَا اور مَرْوَہ مسجدِ حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ اُن مَناسِک کے تھا، جو اللہ تعالٰی نے حج کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئے، تو صَفَا پر ”اِساف“ اور مَرْوَہ پر ”نائلہ“ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہلِ عرب تک پہنچی ، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہء شرک کی ایجاد ہے، اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کر نے کے موقع پر اُن غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں ، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامان کا تقدس خدا کی جانب سے ہے، نہ کہ اہلِ جاہلیّت کی من گھڑت |
1 | ذُولحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے ، وہ عُمْرَہ ہے |
Surah 2 : Ayat 198
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَـٰتٍ فَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ ٱلْحَرَامِۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَٮٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں1 پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے2
2 | یعنی جاہلیّت کے زمانے میں خدا کی عبادت کے ساتھ جن دُوسرے مشرکانہ اور جاہلانہ افعال کی آمیزش ہوتی تھی ان سب کو چھوڑ دو اور اب جو ہدایت اللہ نے تمہیں بخشی ہے، اس کے مطابق خالصتًہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرو |
1 | یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جاہلانہ تصوّر تھا کہ سفرحج کے دَوران میں کسبِ معاش کے لیے کام کرنے کو وہ بُرا سمجھتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک کسبِ معاش ایک دُنیا دارانہ فعل تھا اور حج جیسے ایک مذہبی کام کے دَوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا۔ قرآن اس خیال کی تردید کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ایک خدا پرست آدمی جب خدا کے قانون کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، تو دراصل اپنے ربّ کا فضل تلاش کرتا ہے اور کوئی گناہ نہیں، اگر وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے سفر کرتے ہوئے اس کا فضل بھی تلاش کرتا جائے |