Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 63
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا1 کہ "جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے"
1 | اس واقعے کو قرآن میں مختلف مقامات پر جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو تی ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل میں یہ ایک مشہور و معرُوف واقعہ تھا۔ لیکن اب اس کی تفصیلی کیفیت معلوم کرنا مشکل ہے۔ بس مجملاً یوں سمجھنا چاہیے کہ پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صُورتِ حال پیدا کر دی گئی تھی کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پہاڑ ان پر آپڑے گا۔ ایسا ہی کچھ نقشہ سُورہٴ اعراف آیت ۱۷۱ میں کھینچا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۲) |
Surah 2 : Ayat 93
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱسْمَعُواْۖ قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُواْ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَـٰنُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا کہو: اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے
Surah 4 : Ayat 154
وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ ٱلطُّورَ بِمِيثَـٰقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ٱدْخُلُواْ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُواْ فِى ٱلسَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَـٰقًا غَلِيظًا
اور اِن لوگوں پر طور کو اٹھا کر اِن سے (اُس فرمان کی اطاعت کا) عہد لیا ہم نے اِن کو حکم دیا کہ دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہوں ہم نے اِن سے کہا کہ سبت کا قانون نہ توڑو اوراس پر اِن سے پختہ عہد لیا
Surah 7 : Ayat 143
وَلَمَّا جَآءَ مُوسَىٰ لِمِيقَـٰتِنَا وَكَلَّمَهُۥ رَبُّهُۥ قَالَ رَبِّ أَرِنِىٓ أَنظُرْ إِلَيْكَۚ قَالَ لَن تَرَٮٰنِى وَلَـٰكِنِ ٱنظُرْ إِلَى ٱلْجَبَلِ فَإِنِ ٱسْتَقَرَّ مَكَانَهُۥ فَسَوْفَ تَرَٮٰنِىۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُۥ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُۥ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًاۚ فَلَمَّآ أَفَاقَ قَالَ سُبْحَـٰنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا۟ أَوَّلُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ "اے رب، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں" فرمایا "تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا" چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گر پڑا جب ہوش آیا تو بولا "پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں"
Surah 7 : Ayat 171
۞ وَإِذْ نَتَقْنَا ٱلْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُۥ ظُلَّةٌ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُۥ وَاقِعُۢ بِهِمْ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے1
1 | اشارہ ہے اُس واقعہ کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خدا وند شعلہ میں ہو کر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اُٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“(خروج ١۹: ١۷۔١۸) اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کر دیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و بر تری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہوا اور وہا ں شہنشاہِ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبر دستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہلِ ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کی بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرادی جائے تا کہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادرِ مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہو جاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رُخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے |
Surah 19 : Ayat 52
وَنَـٰدَيْنَـٰهُ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ ٱلْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَـٰهُ نَجِيًّا
ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا1 اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا2
2 | تشریح کے لیۓ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء حاشیہ 206 |
1 | کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسٰی مدین سے مصر جاتے ہوۓ اس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے، اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسٰی کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ’’داہنی جانب‘‘ فرمایا گیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجاۓ خود پہاڑ کا کوئی دائیاں یا بائیاں رخ نہیں ہوتا۔ |
Surah 20 : Ayat 80
يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ قَدْ أَنجَيْنَـٰكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَٲعَدْنَـٰكُمْ جَانِبَ ٱلطُّورِ ٱلْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰ
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب1 تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا2 اور تم پر من و سلویٰ اتارا3
3 | من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرہ، حاشیہ 73۔ الاعراف، حاشیہ 118۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا (خروج، باب 16۔ گنتی باب 11، آیت 7۔9۔ یشوع، باب 5، آیت 12) کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے ’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے‘‘ (باب 16۔ آیت 13۔ 15)۔ ’’اور بنی اسرائیل نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوۓ پوۓ کی طرح تھا‘‘ (آیت 31)۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے؟ ’’لوگ ادھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اسے ہانڈیوں میں ابال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ من بھی گرتا تھا‘‘ اب 11۔آیت 8۔9) یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ 40 برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گۓ تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے، بہ من ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے ان علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے 40 سال تک دشت نوردی کی تھی۔ من ان کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے من کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔ |
2 | سورہ بقرہ رکوع 6، اور سورہ اعراف رکوع 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھی کی تختیوں پر لکھے ہوۓ احکام عطا کیے گۓ۔ |
1 | یعنی طور کے مشرقی دامن میں۔ |
Surah 23 : Ayat 20
وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَآءَ تَنۢبُتُ بِٱلدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْأَكِلِينَ
اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے1، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی
1 | مراد زیتون، جو بحر روم کے گرد و پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے ، حتّیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کے زمانے سے اب تک چلے آ رہے ہیں۔ طور سیناء کی طرف اس کو منسوب کرنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طور سیناء ہے ، اس درخت کا وطن اصلی ہے |
Surah 28 : Ayat 29
۞ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى ٱلْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِۦٓ ءَانَسَ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ ٱمْكُثُوٓاْ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىٓ ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی1 اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی2 اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"
2 | اس سفرکارخ طُورکی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ اپنے اہل وعیال کو لےکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طوراُس راستے پرہے جومدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ غالباََ حضرت موسٰیؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزرچکے ہیں۔ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کےزمانے میں وہ مصر سےنکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کےساتھ وہاں چلاجاؤں اوراپنےخاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں توشاید کسی کومیرا بتہ بھی نہ چلے۔ بائیبل کابیان یہاں واقعات کی ترتیب میںقرآن کے بیاں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے۔ کہ حضرت موسٰیؑ اپنے سسر کی بکریاں چراتے ہوئے’’ بیابان کے پرلی طرف سےخدا کے پہاڑ حورب کےنزدیک‘‘ آنکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اورانہیں رسالت کے منصب پرمامور کرکے مصر کاحکم دیا۔ پھر وہ اپنے سسر کے پاس واپس آگئے اوران سے اجازت کے کر اپنے بال بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کولے کرمدین سے روانہ ہوئے اوراس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطب اورمنصب نبوت پرتقرر کامعاملہ پیش آیا بائیبل اورتلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسٰیؑ کے زمانہ قیام مدین میں فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اوراب ایک دوسرا فرعون مصر کافرمانرواتھا۔ |
1 | حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھافرماتے ہیں کہ حضرت موسٰیؑ نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہےکہ یہ بات خود نبی ﷺ سےمروی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا قضیٰ موسٰی اتم الاجلین واطیبھاعشرسنین۔ ’’ موسٰی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جوزیادہ کامل اوران کے خسر کےلیے زیادہ خوشگوار تھی، یعنی دس سال‘‘ |
Surah 28 : Ayat 46
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ ٱلطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور تم طور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جار ہی ہیں) 1تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا2، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں
2 | عرب میں حضرت اسمٰعیل اورحضرت شعیب علیھماالسلام کے بعد بنی نہیں آیا تھا۔ تقریباََ دوہزار برس کی اس طویل مدت میںباہر کے انبیاء کی دعوتیں توضروروہاں پہنچیں، مثلاََ حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اورحضرت عیسٰی علیھم السلام کی دعوتیں ، مگر کسی نبی کی بعثت خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی۔ |
1 | یہ تینوں باتیں محمد ﷺ کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھیں اس وقت مکہ کے تمام سردار اورعام کفاراس بات پرپوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی طرح آپ کوغیر نبی، اورمعاذاللہ جھوٹا مدعی ثابت کردیں۔ ان کی مدد کےلیے یہود کے علماء اورعیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میںموجود تھے اورمحمد ﷺ کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھےاورآپ کی زندگی کاکوئی گوشہ آپ کی بستی اورآپ کےقبیلے کے لوگوں سے چھپا ہُوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کےثبوت کے طور پریہ تین باتیں ارشاد رفرمائی گئیں ،اس وقت مکے، اورحجاز اورپورےعرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کروہ بیہودہ بات نہ کہہ سکے جوآج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگرچہ جھوٹ گھڑنے میں وہ لوگ ان سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا دروغ بے فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جوایک لمحہ لےلیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اورعیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کرلائے ہو، کہ اس سے آنحضرت نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمدﷺ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اورعلوم وآداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد دے تم یہ ساری تقریریں کررہے ہو، کیونکہ لائبریری تودرکنار، محمد ﷺ کے آس پاس کہیں سے لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اورکوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرے آپ کودیتے ہیں۔ پھران میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جوعبرانی اورسُریانی اوریونانی کتابوں کے ترجمے کرکرکےآپ کودیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بےحیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جراٴت نہ رکھتا تھا کہ شام وفلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کرآئے تھے۔ کیونکہ ی سفر تنہانہیں ہوئے تھے مکے ہی کے تجارتی قافلے ہرسفر میں آپ کے ساتھ لگے ہوتے تھے۔اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دےدیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اورآپ کی وفات کے بعد تودوسال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان برسرپیکار ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام وفلسطین میں کسی عیسائی راہب یایہودی ربّٰی سے حضورﷺ نے کوئی مزاکرہ کیا ہوتا تورومی سلطنت رائی کاپیاڑ بناکریہ پروپیگنڈا کرنے میں زرادریغ نہ کرتی کہ محمدﷺ ، معازاللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھےاورمکے جاکر نبی بن بیٹھے۔غرض، اُس سمیں جبکہ قرآن قریش کے کفار مشرکین کےلیےپیام موت حثیت رکھتا تھا، اوراس کو کوئی مواد فراہم کرکے نہ لاسکا جس سے وہ ثابت کرسکتا کہ محمد ﷺ کےپاس وحی کے سوا ان معلومات کے حصول کا کوئی دوسراذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اسی ایک جگہ نہیں دیاہےبلکہ متعدد مقامات پرمختلف قصوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ حضڑ زکریا اورحضرت مریم کاقصہ بیان کرکے فرمایا ذٰلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذیختصموں،‘‘ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم نے وحی کےذریعہ سےتمہیں دےرہے ہیں، تم اُن لوگوں کےآس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کےلیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا اورنہ اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑرہے تھے‘‘۔(آل عمران، آیت ۴۴)۔ حضرت یوسفؑ کاقصہ بیان کرنے کےبعد فرمایا ذلک من انبآء الغیب نوحیھ الیک وماکنت لدیھما اذ اجمعو امرھم وھم یمکرون، ’’ یہ غیب کی خبروں میںسے ہے جوہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دےرہے ہیں، تم ان کے(یعنی یوسف کےبھائیوں کے) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پراتفاق کیا اورجب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے‘‘(یوسف آیت ۱۰۲)۔ اسی طرح حضرت نوح کامفصل قصہ بیان کرکے فرمایا تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَآ اِلَیْکَ، مَاکُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا،’’ یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جوہم تم پروحی کررہے ہیں تمہیں اورتمہاری قوم کواس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا‘‘ (ہود۔ آیت ۴۹)۔ اس چیز کی باربارتکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانے ہونے اورمحمد ﷺ کےرسول ہونے پرجوبڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سےایک دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس کےگزرےہوئے واقعات کی جوتفصیلات ایک اُمّی کی زبان سے بیان ہورہی ہیں ان کے علم کاکوئی ذریعہ اُس کے پاس وحی کے سوانہیں ہے۔ اوریہ چیز اُن اہم اسباب میںسے ایک تھی جن کی بناپرنبی ﷺ کےہم عمر عصر لوگ اس بات پریقین لاتے چلے چارہے تھے کہ واقعی آپ اللہ کےنبی ہیں اورآپ پروحی آتی ہے ۔ اب یہ ہرشخص خود تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کےلیےاُس ذمانے میں اس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہوگا اورانہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیاکسر اُٹھا رکھی ہوگی ۔ نیز یہ بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اگر معازاللہ اس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تواس کوغلط ثابت کرنے کےلیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کےلیے نہ ہوتا |