Ayats Found (24)
Surah 2 : Ayat 231
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُواْۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُۥۚ وَلَا تَتَّخِذُوٓاْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ هُزُوًاۚ وَٱذْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَآ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَٱلْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِۦۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا، وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا1 اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اُس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو2 اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے
2 | یعنی اس حقیقت کو فراموش نہ کر دو کہ اللہ نے تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے کر دُنیا کی رہنمائی کے عظیم الشان منصب پر مامور کیا ہے۔ تم”اُمّتِ وَسَط“ بنائے گئے ہو۔ تمہیں نیکی اور راستی کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا ہے۔ تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ حیلہ بازیوں سے آیاتِ الہٰی کا کھیل بنا ؤ ، قانون کے الفاظ سے رُوحِ قانون کے خلاف ناجائز فائدے اُٹھا ؤ اور دُنیا کو راہِ راست دکھانے کے بجائے خود اپنے گھروں میں ظالم اور بد راہ بن کر رہو |
1 | “یعنی ایسا کرنا درست نہیں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدّت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رُجوع کر لے کہ اسے پھر ستانے اور دق کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔ اللہ تعالٰی ہدایت فرماتا ہے کہ رُجوع کرتے ہو تو اس نیت سے کرو کہ اب حُسنِ سلوک سے رہنا ہے۔ ورنہ بہتر ہے کہ شریفانہ طریقے سے رُخصت کر دو۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۵۰) |
Surah 2 : Ayat 23
وَإِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
اور اگر تمہیں اِس امر میں شک ہے کہ یہ کتا ب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تواس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو
Surah 2 : Ayat 275
ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٲاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٲاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٲاْۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں1، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو2 اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: 3"تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام4 لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے5 اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا
5 | یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ ء نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے |
4 | تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃ (١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت ، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (۲)تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصُول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ (۳)تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ اکرایہ دار کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ (۳) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے |
3 | ”یعنی ان کے نظریّے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سُود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یُوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہُوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اِسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سُود خوار بھی سُود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اُٹھا سکتا تھا، اُسے وہ قرض پر دُوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دُوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اُٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصّہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دُنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خوا ہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زرعت کے ، اور خواہ انھیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے، اُن میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ(Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دُنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دارہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اُسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبارکا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل اُنہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شُدہ منافع وُصُول کرتا چلا جائے! یہ آخر کس عقل ، کس منطق، کس اُصُولِ انصاف اور کس اُصُولِ معاشیات کی رُو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اُتار چڑھا ؤ ہو گا؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سُودوصُول کرتا رہے |
2 | اہلِ عرب دیوانے آدمی کو”مجنُون“ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبُود پر کس قدر تباہ کُن اثر پرڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اِس دُنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اُسی حالت میں اُٹھایا جائے گا جس حالت پر اُس نے دنیا میں جان دی ہے، اِس لیے سُود خوار آدمی قیامت کے روز ایک با ؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صُورت میں اُٹھے گا |
1 | صل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، کس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ نزُولِ قرآن کے وقت سُودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہلِ عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دُوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدّت مقرر کر دیتا۔ اگر وہ مدّت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دُورے شخص کو قرض دیتا اور اس سےطے کر لیتا کہ اتنی مدّت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدّت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدّت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اِسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے |
Surah 3 : Ayat 138
هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ
یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں اُن کے لیے ہدایت اور نصیحت
Surah 4 : Ayat 34
ٱلرِّجَالُ قَوَّٲمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَٲلِهِمْۚ فَٱلصَّـٰلِحَـٰتُ قَـٰنِتَـٰتٌ حَـٰفِظَـٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُۚ وَٱلَّـٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاًۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں پر قوام ہیں1، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے2، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں3 اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو4، پھر اگر تم وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے
4 | یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کر ڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے۔ اب رہا ان پر عمل درآمد، تو بہرحال اس میں قصُور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادلِ نا خواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درُست ہی نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ مُنہ پر نہ مارا جائے، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے |
3 | حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اُسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے ، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے“۔ یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے۔ مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے، یا خدا کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صُورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صُورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے |
2 | یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے ، جیسا کہ ایک عام اُردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف(یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصُوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دُوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیّت رکھتا ہے اور عورت فطرةً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے |
1 | قوّام یا قیمّ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیّا کرنے کا ذمّہ دار ہو |
Surah 4 : Ayat 58
۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِٱلْعَدْلِۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعَۢا بَصِيرًا
مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو1، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے
1 | یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بُنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دُوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ و ہ انصاف کی رُوح سے خالی ہو گئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نِگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چُھری پھیرنے میں انہیں ذراتامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اُس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دُوسری طرف وہ لوگ تھے جو بُتوں کو پُوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ نہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دُوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دُوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہر حال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو |
Surah 4 : Ayat 63
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يَعْلَمُ ٱللَّهُ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ قَوْلاَۢ بَلِيغًا
اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے
Surah 4 : Ayat 66
وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ ٱقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ أَوِ ٱخْرُجُواْ مِن دِيَـٰرِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُواْ مَا يُوعَظُونَ بِهِۦ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے1 حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے، اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا2
2 | یعنی اگر یہ لوگ شک اور تذبذب اور تردّد چھوڑ کر یکسُوئی کے ساتھ رسُول کی اطاعت و پیروی پر قائم ہو جاتے اور ڈانواں ڈول نہ رہتے تو ان کی زندگی تزلزل سے محفوظ ہو جاتی۔ ان کے خیالات ، اخلاق اور معاملات سب کے سب ایک مستقل اور پائدار بنیاد پر قائم ہو جاتے اور یہ اُن برکات سے بہرہ ور ہوتے جو ایک شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے سے ہی حاصل ہوا کرتی ہیں ۔ جو شخص تذبذب اور تردّد کی حالت میں مبتلا ہو، کبھی اِس راستہ پر چلے اور کبھی اُس راستہ پر، اور اطمینان کسی راستہ کے بھی صحیح ہونے پر اسے حاصل نہ ہو اس کی ساری زندگی نقش بر آب کی طرح بسر ہوتی ہے اور سعی لا حاصل بن کر رہ جاتی ہے |
1 | یعنی جب ان کا حال یہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرنے میں ذرا سا نقصان یا تھوڑی سی تکلیف بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے تو ان سے کسی بڑی قربانی کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا مطالبہ ان سے کیا جائے تو یہ فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے اور ایمان و اطاعت کے بجائے کفر و نافرمانی کی راہ لیں گے |
Surah 5 : Ayat 46
وَقَفَّيْنَا عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِهِم بِعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَّوْرَٮٰةِۖ وَءَاتَيْنَـٰهُ ٱلْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَّوْرَٮٰةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ
پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو بھیجا توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اُس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی1 اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی
1 | یعنی مسیح علیہ السّلام کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہی ایک دین، جو تمام پچھلے انبیاء کا دین تھا، مسیح کا دین بھی تھا اور اسی کی طرف وہ دعوت دیتے تھے۔ توراۃ کی اصل تعلیمات میں سے جو کچھ ان کے زمانہ میں محفوظ تھا اس کو مسیح خود بھی مانتے تھے اور انجیل بھی اس کی تصدیق کرتی تھی(ملاحظہ ہو متی باب ۵ – آیت ۱۷- ۱۸)۔ قرآن اس حقیقت کا بار بار اعادہ کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے انبیاء دُنیا کی کسی گوشے میں آئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی پچھلے انبیاء کی تردید کے لیے اور ان کے کام کو ہٹا کر اپنا نیا مذہب چلانے کے لیے نہیں آیاتھا بلکہ ہر نبی اپنے پیشرو انبیاء کی تصدیق کرتا تھا اور اسی کام کر فروغ دینے کے لیے آتا تھا جسے اگلوں نے ایک پاک ورثہ کی حیثیت سے چھوڑا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی کتاب اپنی ہی پچھلی کتابوں کی تردید کرنے کے لیے کبھی نہیں بھیجی بلکہ اس کی ہر کتاب پہلے آئی ہوئی کتابوں کی مؤیّد اور مصدق تھی |
Surah 7 : Ayat 145
وَكَتَبْنَا لَهُۥ فِى ٱلْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَىْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَاۚ سَأُوْرِيكُمْ دَارَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی1 اور اس سے کہا: 2"اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا3
3 | یعنی آگے چل کر تم لوگ اُن قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نےخدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے |
2 | یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل ِعام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اورحیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں ، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے |
1 | بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پھتر کی سلیں تھیں، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنی قدرت سے کیا تھا، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا۔(تقابل کے لیے ملاحضہ ہو بائیبل، کتاب خروج، باب ۳١، آیت١۸۔باب ۳۲،آیت ١۵،١٦ و استثناء باب ۵ آیت ٦۔۲۲) |