Ayats Found (2)
Surah 48 : Ayat 1
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی1
1 | صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسیکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوۓ اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔ قسم ہےاس ذات کیجس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گۓ، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دیتے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گۓ جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گۓ جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آۓ تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فری الواقع اسلام کی فتح کا آغار صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر) |
Surah 48 : Ayat 2
لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے1 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے2 اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے3
3 | اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں |
2 | نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جاۓ کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسقو کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلاۓ کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جاۓ جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی |
1 | جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جاۓ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوۓ اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ دراز کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔ تاہم چونکہ روۓ سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوۓ دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد) |